کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ امام تنہا مسجد کے سائبان میں داستے پرکھڑا ہو اور مقتدی سب کے سب صحن مسحد میں نیچے کھڑے ہوں تو اس قدر بلندی اور پستی امام ومقتدی کی مانع اقتدا ہے یا نہیں حدیث اور فقہ سے جواب دیجئے اور اختلاف احادیث اور ائمہ اجتہاد جو اس میں ہوں اس سےمطلع فرمائیے۔ بینوا توجروا
اس باب میں حدیثیں مختلف وارد ہوئی ہیں اور علمائے اجتہاد کے اقوال بھی مختلف ہیں لیکن احادیث اور اقوال ائمہ میں غور کرنے سےمعلوم ہوتا ہےکہ یہ صورت اقتدا اور امامت کی سب کے نزدیک جائز ہے۔ (ترجمہ) ’’جس دن منبر بنا اس دن رسول اللہﷺ اس پرپہلی مرتبہ بیٹھے آپ نےاسی پر تکبیر کہی پھر رکوع کیا پھر پیچھے چلتے ہوئے نیچے اتر آئے اور سجدہ کیا اور لوگوں نے بھی آ پ کے ساتھ سجدہ کیا پھر آپ منبر پر تشریف لے گئے یہاں تک کہ آپ نماز سے فارغ ہوئے اور فرمایا اے لوگو! میں نے یہ اس لیےکیا تاکہ تم کومیری نماز کا علم ہوسکے اور میری اقتدا کرسکو۔‘‘
پس یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ امام اگر اونچی جگہ پرکھڑا ہو اور مقتدی سب کے سب نیچےہوں تو اقتدا وار امامت اور نماز درست ہے ۔ امام بخاری کا یہی مذہب ہے اور اپنی کتاب صحیح میں وہ اسی جواز کے قائل ہوئے ہیں اور اسی حدیث سے استدلال کیا ہے اور ان کےاتباع اور موافقین بھی ہیں اور ان کے نزدیک بھی یہی حدیث اس کے جواز کی حجت ہے۔
’’حضرت حذیفہؓ نے مدائن میں ایک دوکان پرکھڑے ہوکر لوگوں کو نماز پڑھائی ابومسعودؓ نے آپ کو قمیص سے پکڑ کر کھینچا جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو کہا کہ تم نہیں جانتے کہ اس طرح کرنا منع ہے انہوں نےکہا ہاں جب آپ نےمجھ کوقمیص سے پکڑ کر کھینچا تو مجھے یادآگیا۔‘‘
پس یہ دونوں حدیثیں دلالت کرتی ہیں کہ امام اونچی جگہ پرکھڑا ہو اورمقتدی سب کے سب نیچے ہوں تو یہ امر ناجائز اور ممنوع ہے اور یہی مذہب ہے حنفیہ اور شافعیہ اور مالکیہ رحمہم اللہ کا اور یہی حدیثیں ان کی دلیل ہیں، پس یہی ہے خلاصہ مذاہب اور ادلہ اس مسئلہ کا۔ تطبیق بین الاحادیث۔ حدیث صلوٰۃ علی المنبر کی محمول ہے تھوڑی سی بلندی کے جواز پر اور حدیث نہی عن الرفع کی محمول ہے زیادہ بلندی پر جس کی تقدیر میں علما نے اپنی اپنی رائے الگ قائم کی ہے ، پس دونوں حدیثوں کوملانے سے یہ بات قائم ہوتی کہ ارتفاع قلیل امام کے لیے جائز ہے اور ارتفاع کثیر ممنوع ہے۔
تطبیق بین الاقوال الائمۃ رحمہم اللہ تعالیٰ :
امام بخاری اور ان کے موافقین و اتباع رحمہم اللہ نے جو امام کابلند جگہ پرکھڑا ہونا جائز کہا ہے تو اس سے بلند ی ایسی مراد ہے جس سے امام کا حال مقتدیوں سے مخفی نہ رہے۔ اور حنفیہ اور مالکیہ اور شافعیہ وغیرہ علماء نے مطلق بلندی کوناجائز کہا ہے، سو ان لوگوں کا قول محقق نہیں ہے۔ امام شافعی نے نیل الاوطار میں کہا ہے کہ ’’ اگر امام ایک ہاتھ کی بلندی پرہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ عطاء نے کہا اگر اتنی بلندیہو کہ امام کے تمام حالات کاعلم ہوسکے تو کوئی حرج نہیں ہے ، درمختار میں ہے کہ اگر اکیلا امام بلندی پر ہو اور تمام مقتدی نیچےہوں تو یہ ناجائز ہے اگر کچھ امام کے ساتھ بھی ہوں تو جائز ہے اور اگر ایک ہاتھ کی بلندی ہو یا اس سےکم ہو تو کوئی حرج نہیں ہے،طحاوی نے کہا اگر بلندی آدمی کے قدر سے کم ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن زیادہ صحیح یہی ہے کہ بلندی ایک ہاتھ تک ہو تو کوئی حرج نہیں۔‘‘
پس واضح ہوگیا کہ احادیث اور اقوال رجال امت اگرچہ باہم بظاہر مختلف معلوم ہوتے ہیں، لیکن وہ درحقیقت سب کے سب ادائے معنی میں متحد ہیں اور احادیث کامفاد بھی یہی ہے کہ امام کا تنہا اکیلا تھوڑی سی بلندی پرکھڑا ہونا مضر نہیں ہے، بلکہ درست اور جائز ہے اور زیادہ بلندی پرکھڑا ہونا ممنوع اورناجائز ہے اور رجال امت کے اقوال کا مفاد بھی یہی ہے غایۃ الامر علماء نے تقدیر بلندی و پستی جائز و ناجائز اختلاف کیا ہے ۔نتیجہ کلام کا یہ ہوا کہ امام اکیلا مسجد کے سائبان میں داسے پر کھڑا ہو اور سب مقتدی صحن مسجد میں نیچے کھڑے رہیں تو حدیث کے رُو سے یہ امر جائز ہے اور علمائے حنفیہ اور شافعیہ اور مالکیہ محققین رحمہم اللہ کے سب کے نزدیک یہ امر جائز ہے ، جیسا کہ تطبیق احادیث و اقوالبالا سے واضح ہوگیا ہے اور امام المحدثین جناب امام بخاری اور ان کے موافقین و اتباع رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ ہذا ماظہر لناواللہ اعلم بالصواب و منہ الاصابۃ فی کل باب ،حدیث بخاری سے جواز معلوم ہوتا ہے، کیونکہ یہ صورت اگر ناجائز ہوتی تو ناجائز صورت سے تعلیم نہ کرتے، اس سے ابن دقیق العید کے اعتراض کا جواب بھی ہوگیا ہاں اولیٰ و افضل یہی ہے کہ امام بلندجگہ پر کھڑا نہ ہو اور حدیث نہی محمول خلاف اولےٰ پر ہے ۔ کما ہو دأب العلماء فی التطبیق بین الاحادیث،واللہ اعلم بالصواب۔ حررہ العاجز ابوعبدالرحمٰن محمد عفی عنہ مصحح مطبع انصاری۔ الامرکما قال سید محمد نذیر حسین عفی عنہ