کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کسی شخص کی بوجہ بیماری کے چند روز کی نماز فوت ہوجائے اور اسی حالت میں وہ مریض قضا کرجائے تو اس کی پنج وقتی فوت شدہ میں سے ہر نماز کے عوض کس قدر اور کس حساب سے صدقہ دیا جائے، آگاہ فرما دیں۔بینواتوجروا
جس شخص کی نمازیں فوت ہوگئی ہوں اور اس شخص نےکفارہ نماز میں وصیت بھی کی ہو تو اس کے ولی کو لازم ہے کہ اس کی ہر نماز فوت شدہ کے عوض نصف صاع گیہوں یا ایک صاع جو صدقہ کرے،فی[1] الحمادیۃ اذا مات و علیہ صلوات فائتۃ و اوصی بان یعطی کفارۃ صلواتہ یعطی لکل صلوۃ نصف صاع من بروللوتر نصف صاع ولصوم یوم نصف صاع و انما یعطی من ثلث مالہ انتہی اور حالت عدم وصیت میں بھی تبرعا و احسانا جائز ہے کہ ولی میت کی طرف سے کفارہ دے، قال[2] فی العالمگیریۃ وان لم یوص لورثتہ و تبرع بعض الورثۃ یجوز انتہی اور ہدایہ میں ہے ومن[3] مات و علیہ قضاء رمضان ناومیبہ اطعم عنہ ولیہ لکل یوم مسکینا نصف صاع منبرواصاعا من تمر و شعیر و نیز ہدایہ میں ہے والصلوٰۃ[4] کالصوم باستحسان المشائخ و کل صلوٰۃ تعتبر بصوم یوم ھو الصحیح واللہ اعلم۔
[1] اگر کوئی آدمی مرجائے اور اس کے ذمہ نمازیں ہوں اور اپنی نمازوں کےکفارہ کی وصیت کرجائےتو ہرنماز کاکفارہ آدھا ٹوپہ گندم ہے اور وتر کا بھی نصف صاع ہے اور ایک دن کے روزے کا کفارہ بھی نصف صاع ہے اور یہ کفارہ ثلث مال سے دیا جائے گا۔
[2] اگر مرنے والا وارثوں کو کفارہ کی وصیت نہ کرجائے اور و ارث از خود کفارہ دے دیں تو جائز ہے ۔
[3] اگر کوئی آدمی مرجائے اور اس پر رمضان کےروزوں کی قضا ہو اور وصیت کرجائے تو اس کے وارث ہرروزہ کے بدلے میں نصف صاع گندم یاکھجور اور جو کا ایک صاع کفارہ میں دے دیں۔
[4] مشائخ نے استحسانا نماز کوروزے کی طرح قرار دیا ہے اور ہر نماز ایک دن کے روزے کے برابر ہے۔