سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(139) دو نمازوں کا جمع کرنا کیسا ہے؟

  • 5646
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1362

سوال

(139) دو نمازوں کا جمع کرنا کیسا ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جمع کرنا دو نمازوں کا کیسا ہےمثلاً زید اپنے مکان سے بازار کو چلاجو کہ اس کے مکان سے ایک میل یا دو میل کے فاصلہ پر واقع ہے، تو اتنے فاصلہ کے درمیان نماز کو جمع کرسکتا ہے یا نہیں۔ بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایک میل یا دو میل کی مسافت باتفاق ائمہ سفر نہیں ہے اور اتنے فاصلہ پربالاتفاق قصر جائز نہیں ہے ، پس صورت مسئولہ میں اتنے فاصلہ کے درمیان نماز کو جمع کرناجائز نہیں اور سفر کےعلاوہ  حضر میں بلاعذر نمازوں کو جمع کرنا درست نہیں ہے۔ سبل السلام صفحہ158میں ہے:

’’حضرت میں نماز جمع کرناشارح نے قائلین جواز کے دلائل ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ اکثر امام اس کے قائل نہیں ہیں، ان احادیث کی بناء پر جو اوقات معینہ پرنماز ادا کرنے کے متعلق ہیں اور یہ بھی تواتر اثابت ہے کہ آنحضرت نے مزدلفہ کے علاوہ ساری زندگی نماز وقت سے بے وقت نہیں پڑھی۔‘‘

اور حدیث  ابن عباسؓ جس میں یہ بیان ہے کہ مدینہ میں حضرت ﷺ نے بغیر مطر و خوف کے نمازوں کو جمع کیا، سو یہ حدیث جواز جمع فی الحضر کے لیے حجت نہیں ہوسکتی، اس واسطے کہ اس میں تعیین جمع تقدیم یا جمع تاخیرکی نہیں ہے اور اپنی طرف سے بلا دلیل ایک کو معین کرلینا تحکم ہے۔

’’ابن عباس کی حدیث کہ  انہوں نےمدینہ میں بغیر کسی عذر کے نمازوں کو جمع کرکے پڑھا اس بناء پر کہ امت پر تنگی نہ ہو، اس حدیث سے استدلال صحیح نہیں ہے، کیونکہ جمع تقدیم یا تاخیر کی اس میں تعیین نہیں ہے، اور از خود ایک جانب کی تعیین کرنا زبردستی ہے تو حکم اپنے اصل پر رہے گا کہ معذور کو جمع کرنے کی اجازت ہے، کیونکہ اس کامخصص موجود ہے اور صحابہ و تابعین کے آثار حجت نہیں ہیں، کیونکہ  اس میں اجتہاد کو دخل ہے ، بعض نے ابن عباسؓ کی حدیث کو جمع صوری پرمحمول کیا ہے ، اسےقرطبی،ماجشون، طحاوی اور ابن سید الناس سے پسند کیا ہے کیونکہ بخاری  ومسلم میں ابوالشعشاء سے راوی حدیث  نے کہا  میرا خیال ہے کہ آپ نے ظہر کو مؤخر اور عصر کو مقدم کیا ہوگا تو ابوالشعشاء نے کہامیرابھی یہی  خیال ہے،ابن سیدالناس نے کہاکہ راوی حدیث کے مطلب کو اچھا سمجھتا ہے اگرچہ ابوالشعشاء نے اپنے خیال کو حتما بیان نہیں کیا لیکن اس دعویٰ میں نظر ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ بہت سے علم والے  اپنا علم ایسے آدمی کے پاس لے جاتے ہیں جو اس سے زیادہ سمجھدار ہوتا ہے ہاں یہ تاویل نسائی کی حدیث سے متعین ہوجاتی ہے کہ ابن عباس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سات سات اور آٹھ آٹھ نمازیں اکٹھی کرکے پڑھی ہیں آپ ظہر کو مؤخر کرتے اور عصر کو مقدم اور مغرب کو مؤخر اور عشاء کو مقدم اور نووی سے تعجب ہے کہ انہوں نے اس تاویل کو ضعیف قرار دیاہے اور حدیث مروی ہے کہ متن سے غفلت اختیار کی ہے کیونکہ  جب واقعہ ایک ہی ہو تو مطلق کو مقید پرمحمول کیا جاتا ہے اور نووی کا یہ کہنا کہ حدیث کے الفاظ کہ ’’آپ کی امت پر تنگی نہ ہو‘‘ یہ جمع صوری کی تاویل کو ضعیف قرار دیتے ہیں اس کاجواب یہ ہے کہ جمع صوری میں بھی ایک طرح کی آسانی ہے کیونکہ نماز کی تیاری ، وضو وغیرہ ایک ہی دفعہ کرنا پڑتا ہے ، تو بلا شبہ اس میں بھی ایک طرح کی تخفیف ہے۔ واللہ اعلم۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے