کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ روز بلا ناغہ نماز کو جمع کرکے پڑھنا یعنی نماز ظہر کوعصر کے ساتھ اور مغرب کو عشاء کے ساتھ پڑھنا یا برعکس جائز ہے یا نہیں۔ بینوا توجروا
قال[1] اللہ تعالیٰ ان الصلوٰۃ کانت علی المؤمنین کتابا موقوتنا و عن [2]جابر رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جاء ہ جبریل علیہ السلام فقال لہ قم فصلی الظہر حین زالت الشمس الحدیث رواہ احمد والنسائی والترمذی، ہرنماز کو اپنے اپنے وقت پر پڑھنا، جیسا کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے ، فرض ہے اور جمع تقدیم یا تاخیر حنفیہ کے نزدیک سوائے حج کے مطلقاً جائز نہیں ہے جیساکہ شرح وقایہ اور دیگرمعتبرات فقہ میں ہے۔ ولا یجمع فرضان فی وقت بلا حج اور شافعیہ اور محدثین کے نزدیک سفر میں جائز ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور بارش میں جمع کرنے کی کوئی صحیح و صریح دلیل کتب فقہ و حدیث سے پائی نہیں جاتی جیسا کہ ماہرین فقہ و حدیث پر مخفی نہیں اور حدیث ابن عباسؓ ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمع بین الظہر و العصر و بین المغرب والعشاء بالمدینۃ من غیر خوف ولا مطرتیل لابن عباس ما اراد بذلک قال اراد ان لا یحرج امتہ۔ یعنی جمع کیا رسول اللہﷺ نے ظہر و عصر کو اور مغرب و عشاء کو مدینہ میں بغیر خوف و مطر کے ، سو یہ جمع صوری پر محمول ہے جیسا کہ صحیح نسائی میں موجود ہے۔ حررہ محمد جمال الدین بن حافظ غلام رسول بن حافظ محمود ، ساکن امرتسر مسجدباغ والی۔ (سید محمدنذیر حسین)
حضر میں ہر روز بلاناغہ نماز کو جمع کرکے پڑھنا جائز نہیں ہے، اس واسطے کہ یہ کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے، رہی حدیث ابن عباسؓ جس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے مدینہ میں بلا کسی عذر کے نماز کو جمع کرکے پڑھا ہے، سو اہل علم نے اس کو متعدد جواب لکھے ہیں ، ازاں جملہ ایک ی ہے کہ اس حدیث میں جمع بین الصلوتین سے مراد جمع صوری ہے یعنی ظہر کو اس کے آخر وقت میں اور عصر کو اس کے اوّل وقت میں پڑھا ، وعلی ہذا القیاس مغرب و عشاء کو پڑھا، اس جواب کوعلامہ قرطبی نے پسند کیا ہے اور امام الحرمین نے اس کو ترجیح دی ہے اور قدماء میں سے ابن الماجثون اور طحاوی نے اسی کے ساتھ جزم کیا ہے اور ابن سیدالناس نے اس کو قوی بتایا ہے اس وجہ سے کہ اس حدیث کے راوی ابوالشعشاء (جنہوں نے اس کو ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے) کا بھی یہی خیا ل ہے اس حدیث میں جمع سے جمع صوری مراد ہے ، حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ اس کی تقویت اس سے ہوتی ہے کہ حدیث کے کسی طریق میں جمع کے وقت کا بیان نہیں ہے، ( یعنی یہ بیان نہیں ہے کہ ظہر و عصر کو آپ نے کس وقت جمع کیا، آیا آپ نے جمع تقدیم کی یعنی ظہر کے وقت میں ظہر و عصر کو جمع کیا یا جمع تاخیر کی یعنی عصر کے وقت میں ظہر و عصر کو جمع کیا یا جمع صوری کی وعلی ہذا القیاس مغرب و عشاء کے جمع کے وقت کا بھی ذکر نہیں ہے، پس اس حدیث میں جمع سے یاتو مطلق جمع مراد لیا جائے تو نماز کو اس کے وقت محدود و معین سے بلا عذر خارج کرنا لازم آئے گا یا کوئی ایسا جمع مراد لیا جائے جس سے نماز کا اس کے وقت محدود و معین سے خارج کرنا لازم نہ آئے اور احادیث مختلفہ میں توفیق و تطبیق بھی ہوجائے تو جمع صوری ہی مراد لینا اولیٰ ہے۔ علامہ شوکانی نیل میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں جمع سے جمع صوری مراد ہونا متعین ہے۔ اس پردلیل نسائی کی یہ حدیث ہے ۔ عن ابن عباس ؓصلیت مع النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الظہر والعصر جمیعا والمغرب والعشاء جمیعا اخر الظہر و عجل العصر واخر المغرب و عجل العشاء (یعنی ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ظہر اورعصر کی نماز جمع کرکے پڑھی اور مغرب اور عشاء کی نماز جمع کرکے پڑھی ، ظہر میں دیر کی اور عصر میں جلدی اور مغرب میں دیر کی اورعشاء میں جلدی کی۔ پس جب کہ ابن عباسؓ نے جو حدیث کے راوی ہیں، خود تصریح کردی کہ جمع سے مراد جمع صوری ہے تو اس حدیث میں جمع صوری ہی مراد ہونا متعین ہوا۔ اور اس حدیث میں جمع سے جمع صوری مراد ہونے کی تائید ابن مسعودؓ کی اس روایت سے ہوتی ہے۔ ما رأیت[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لغیرمیقاتہا الاصلوتین جمیع بین المغرب والعشاء بالمزدلفۃ و صلی الفجر یومئذ قبل میقاتہا۔ پس ابن مسعودؓ نے جمع بین الصلوتین کی مطلقاً نفی کرکے اس کو مزدلفہ میں منحصر کردیا ہے، حالانکہ حدیث جمع بین الصلاتین فی المدنیہ کے راوی ابن مسعودؓ بھی ہیں ، پس ابن مسعودؓ کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ میں جمع بین الصلوتین واقع ہوئی تھی، وہ جمع حقیقی نہیں تھی بلکہ صوری تھی ، ورنہ ابن مسعودؓ کی دونوں روایتیں باہم لڑ جائیں گی و نیز حدیث مذکو رمیں جمع سے جمع صوری مراد ہونے کی تائید اس سےبھی ہوتی ہے کہ عبداللہ بن عمرؓ نے بھی حدیث جمع بین الصلوتین فی المدینہ کو روایت کیا ہے اور انہیں عبداللہ بن عمرؓ سے یہ روایت آئی ہے۔ خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فکان یؤخر الظہر و یعجل العصر فیجمع بینہما و یؤخر المغرب ویعجل العشاء فیجمع بینہما رواہ ابن جریر یعنی رسول اللہﷺ باہر تشریف لائے پس ظہر میں تاخیر اور عصر میں تعجیل فرما کر دونوں کو جمع کیا اورمغرب میں تاخیر اور عشاء میں تعجیل فرما کر دونوں کو جمع کیا، پس عبداللہ بن عمرؓ کی یہ روایت صاف بتاتی ہے کہ حدیث جمع بین الصلوتین میں جس میں مطلق جمع لفظ وارد ہوا ہے، جمع صوری ہی مراد ہے و نیز جمع بین الصلوتین کی تین صورتیں ہیں، جمع تقدیم و جمع تاخیر و جمع صوری اور حدیث ابن عباس ؓ میں لفظ جمع بین الظہر والعصر بین المغرب والعشاء تینوں صورتوں کو شامل نہیں ہوسکتی اور نہ ان میں سے دو کو، کیونکہ لفظ جمع فعل مثبت ہے اور فعل مثبت اپنے اقسام میں عام نہیں ہوتا کما صرح بہ ائمۃ الاصول، پس لفظ جمع سے ایک ہی صورت مراد ہوگی اور ایک صورت خاص کامتعین ہونا دلیل پرموقوف ہے اور جمع صوری کے متعین ہونے پر دلیل قائم ہے، لہٰذا یہی صورت متین ہوگی، انتہی کلام الشوکانی مترجما و ملخصا۔
علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں جمع بین الصلوتین پربہت اچھی بحث تفصیل کےساتھ کی ہے۔آخر میں لکھتے ہیں: القول[4] بان ذلک الجمع صوری متحتم وقد جمعنا فی ھذا المسئلۃ رسالۃ مستقلۃ سمیناھا تشفیف السمع بابطال ادلۃ الجمع انتہی۔ علامہ محمد بن اسماعیل الامیر سبل السلام میں لکھتے ہیں: جمع حضر کے اکثر ائمہ قائل نہیں ہیں اور ان کی دلیل وہ حدیثیں ہیں جن میں اوقات کی پابندی لازمی قرار دی گئی ہے اور دوسری نبی ﷺ کا اوقات نماز پر پابندی کرنا، چنانچہ ابن مسعودؓ کی حدیث میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے ساری زندگی کوئی نماز بے وقت نہیں پڑھی، ماسوائے مزدلفہ کی دو نمازوں کے کہ وہاں آپ نےمغرب اور عشاف کو جمع کیا اورصبح کی نماز وقت سے پہلے پڑھی اور مسلم کی ابن عباس والی حدیث کہ آپ نے بغیر کسی عذر کے مدینہ میں نمازیں جمع کرکے پڑھیں،اس سے استدلال درست نہیں ہے کیونکہ اس میں جمع تقدیم و تاخیر کی تعیین نہیں ہے اور اگر کوئی تعیین کرے تو یہ زبردستی ہے تو اس صورت میں معاملہ اپنے اصل پر رہے گا کہ معذور کو جمع کرنے کی اجازت ہے، کیونکہ ان کامخصص ثابت ہے، باقی رہے صحابہ اور تابعین کے آثار تو وہ حجت نہیں ہیں کیونکہ اس میں اجتہاد کو دخل ہے ، بعض نے ابن عباسؓکی حدیث کو جمع صوری پر محمول کیا ہے ، مثلاً قرطبی، ماجشون ،طحاوی، ابن سیدالناس چنانچہ راوی حدیث نے ابوالشعشاء سے پوچھا کہ آپ نے شاید جمع صوری کی ہو اس نے کہا،میرا بھی یہی خیال ہے اور وہ جو کہتے ہیں کہ حدیث کا راوی اس کا مطلب اچھا جانتا ہے تو اس کامطلب صرف یہ ہےکہ الفاظ حدیث کی تشریح اس کی معتبر ہے، لیکن ابن عباسؓ کی حدیث کی صراحت کے ساتھ ان کا اپنا عمل بھی اس کی وضاحت کرتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ مدینہ میں سات سات ، آٹھ آٹھ نمازیں جمع کرکے پڑھی ہیں آپ نے ظہر کو مؤخر کیا اور عصر کو مقدم اور مغرب کو مؤخر کیااور عشاء کو مقدم ،تعجب ہے کہ نووی نے اس تاویل کو کیسے ضعیف قرار دیا اور حدیث مروی کے متن سے کیسے غافل رہا اورمطلق کو مقید پرمحمول کیا جاتا ہے جب کہ ان کا واقعہ ایک ہی ہو،جیسا کہ اس حدیث میں ہے اور جمع صوری کی تاویل کو یہ قول ضعیف قرار دیتا ہے کہ آپ کی امت پر آسانی ہو، لیکن یہ غلط ہے جمع صوری میں بھی تو آسانی ہوتی ہے کیونکہ نماز کی تیاری اور وضو وغیرہ ایک ہی دفعہ کرنا پڑتا ہے اور وقت پر نماز پڑھنے کی نسبت اس میں آسانی ہے اورمسافر پر حاضر کو قیاس کرنا وہم ہے کیونکہ اصل میں علت سفر ہے اور وہ فرع میں موجود نہیں ہے،ورنہ اس سے تصر اور فطر بھی لازم آئے گا اور جمع تقدیم ایک خطرناک کام ہے کہ اس سے نماز وقت کےہونے سے پہلے پڑھی گئی اور یہ غلط ہے۔ واللہ اعلم۔ (کتبہ محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفی عنہ)
[1] ایمانداروں پر نماز وقت مقررہ پر فرض کی گئی ہے۔
[2] نبی ﷺ کے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور کہا اٹھیئے، پھر جب سورج ڈھل گیا تو ظہر کی نماز پڑھی۔ الحدیث
[3] میں نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی نہیں دیکھا، کہ آپ نے کبھی کوئی نماز بے وقت پڑھی ہو ،مگر دو نمازیں کہ آپ نے مغرب اورعشاء کو مزدلفہ میں جمع کیا اور اس دن صبح کی نماز وقت سے پہلے پڑھی۔
[4] یہ کہنا کہ یہ جمع صوری تھی غلط ہے ، ہم نے اس مسئلہ میں ایک مستقل رسالہ تصنیف کیا ہے جس کانام ’’تشنیف السمع بابطال ادلۃ الجمع ‘‘ ہے۔