سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(136) تارک الصلوٰۃ کافر ہوتا ہے یا نہیں؟

  • 5643
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 2450

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ تارک الصلوٰۃ کافر ہوتا ہے یا نہیں اور حدیث میں ترک الصلوٰۃ معتمداً فقد کفر کے کیامعنی ہیں۔ بینواتوجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تارک الصلوٰۃ کےکافر ہونے اور نہ ہونے میں علمائے کرام مختلف ہیں ، علامہ شوکانی نیل الاوطار میں لکھتے ہیں: جو شخص نماز  کے وجوب کا منکر ہو کر نماز کو ترک کرے وہ بالاتفاق کافر ہے اس کے کفر میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف نہیں مگر ہاں جو شخص نو مسلم ہو یا مسلمانوں کے ساتھ رہنے کا اتفاق نہ ہوا ہو تو اس کو جب تک نماز کے  وجوب کی خبر نہ پہنچے تب تک وہ کافر نہیں ہوسکتا اور جو شخص نماز کے وجوب کا عقیدہ رکھ کر بہ سبب کاہلی اور غفلت کے نماز کو ترک کرکے جیساکہ بہت سے لوگوں کا حال ہے سو ایسے تاریک الصلوۃ کے کافر ہونے اور نہ ہ ونے میں لوگوں کا اختلاف ہے پس عترت اور امام مالک  اور امام شافعی اور جماہیر سلف و خلف کا مذہب یہ ہےکہ ایسا شخص کافرنہیں ہے بلکہ فاسق ہے وہ اگر توبہ کرے فبہا ورنہ اس کو قتل کرنا چاہیے اور اس کی یہی حد ہے جیسا کہ زانی محصن کی حد قتل ہے مگر ایسےتاریک الصلوٰۃ کو تلوار سے قتل کرنا چاہیے اور سلف میں سے ایک جماعت کا یہ مذہب ہے کہ وہ کافر ہے اور یہی مذہب مروی ہے  حضرت علی سے  اور امام احمد سے ایک روایت میں یہی منقول ہے اورعبداللہ بن  مبارک اور اسحقٰ بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے اور بعض اصحاب شافعی کا بھی یہی مذہب ہے اور امام ابوحنیفہ اور ایک جماعت اہل کوفہ کا مذہب یہ ہے کہ وہ نہ کافر ہے اورنہ وہ قتل کیا جائے گا بلکہ اس کی تعزیر کی جائے گی اور جب تک وہ نماز نہیں پڑھے گا تب تک وہ قید میں رکھا جائے گا اس کے بعد علامہ شوکانی نے لکھا ہے کہ حق یہ ہے کہ ایسا تارک الصلوٰۃ کافر ہے اور وہ قتل کیا جائے گا اس کاکافرہونا  تو اس وجہ سے حق ہے کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہےکہ شارع نے ایسے تارک الصلوٰۃ کو کافر کہا ہے اور جولوگ اس کے کافر ہونے کے قائل نہیں ہیں وہ جس قدر معارضات وارد کرتے ہیں ان میں سے ایک بھی ہم کو لازم نہیں آتا کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ جائز ہے کہ کفر کی بعض قسمیں ایسی ہوں جو مغفرت و استحقاق شفاعت سےمانع نہ ہوں جیسا کہ اہل قبلہ کا کفر بوجہ بعض ایسے گناہوں کے جن کو شارع نےکفر کہا ہے پس اس بنا پر ان تاویلات کی کچھ حاجت نہیں ہے جن میں لوگ پڑتے ہین انتہی کلام الشوکانی مترجما ۔ میں کہتا ہوں کہ بلاشبہ علامہ ممدوح کی یہ تحقیقاحق بالقبول ہے اس واسطے کہ اس تحقیق پر احادیث مختلفہ میں بلاکسی تاویل کے جمع و توفیق ہوجاتی ہے۔ مثلاً حدیث: من [1]ترک الصلوٰۃ متعمدا فقد کفر  اور حدیث العہد الذی بیننا و بینہم الصلوٰۃ فمن ترکھا فقد کفر اور حدیث  بین[2] الرجل و بین الکفر ترک الصلوٰۃ رواہ الجامعۃ الاالبخاری والنسائی اور حدیث کان[3] اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا یرون شیئا من الاعمال ترکہ کفر غیر الصلاۃ رواہ الترمذی سے صاف اور صریح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ تارک الصلوٰۃ کافر ہے اورآیۃ:

ان [4]اللہ لا یغفر اللہ یشرک بہ و یغفر مادون ذلک اور حدیث ومن[5] لم یات بھن فلیس لہ عنداللہ عہدا ان شاء  عذبہ وان شاء غفرلہ رواہ احمد و ابوداؤد و مالک فی المؤطا اور حدیث من[6] شہد ان لا الہ  الا اللہ وحدہ لا شریک لہ وان محمد اعبدہ ورسولہ وان عیسیٰ عبداللہ و کلمۃ القاھا الی مریم و روح منہ والجنۃ حق والنارحق ادخلہ اللہ الجنۃ علی ماکان من العمل متفق علیہ اور حدیث ما [7]من عبد یشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ وان محمدا عبدہ و رسولہ الاحرم اللہ علی الناس قال (ای معاذ) افلا اخبر بھا الناس الحدیث متفق علیہ اور حدیث شفاعت[8] فھی نائلۃ ان شاء اللہ من مات من  انہی لا یشرک باللہ شیئا رواہ مسلم و غیر ذلک من الاحادیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تارک الصلوٰۃ کافرنہیں  ہے بلکہ وہ مغفرت الٰہی و شفاعت نبوی و دخول جنت کامستحق ہے۔

پس علامہ ممدوح کی تحقیق پر ان احادیث مختلفہ میں کسی کی تاویل کرنے کی کچھ ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ تمام احادیث اپنے ظاہر معنی پرمحمول ہیں کیونکہ جن احادیث سے تاریک الصلوۃ کا کفر ثابت ہوتاہے ان احادیث سے وہ بلا شبہ کافر ہیں اور ان کو کافر کہنا روا نہیں مگر ہاں تارک الصلوٰۃ کاکفر ایسا کفر نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے ملت اسلام سے خارج ہوجائے اور مغفرت و شفاعت و دخول جنت کا مستحق نہ رہے بلکہ تاریک الصلوٰۃ کا کفر وہ کفر ہے جس کی وجہ سے نہ وہ ملت اسلام سے خارج ہوتا ہے اور نہ استحقاق مغفرت و شفاعت و دخول جنت سےمحروم ہوتا ہے اور ہاں واضح رہے کہ ایساکفر جو نہ مخرج از ملت اسلام ہو اور نہ مانع از استحقاق مغفرت و شفاعت احادیث سے ثابت ہے  ،دیکھو حدیث متفق علیہ سباب[9] المسلم فسوق و قتالہ کفر اور حدیث متفق علیہ لیس[10] من رجل ادعی لغیر ابیہ وھو یعلمہ الاکفر اور حدیث مسلم اثنتان[11] فی الناس ھما بھم کفر الطعن فی النسب والنیاحۃ علی المیت اور حدیث صحیح ایما[12] عبدابق من مرالیہ فقد کفر اور حدیث صحیح من[13] قال  لاخیہ یاکافر فقد باء بھا وغیر  ذلک من الاحادیث ان تمام احادیث میں کفر سے بالاتفاق اسی قسم کا کفر مراد ہے قال [14]الشوکانی الکفر انواع منہا ما لاینا فی المغفرۃ ککفر اھل القبلۃ ببعض الذنوب التی سماھا الشارع کفر او ھو یدل علی عدم استحقاق کل تارک الصلوۃ التخلید فی النار وقال سبب الوقوع  فی مضیق التاویل توھم الملازمۃ بین الکفر و عدم المغفرۃ ولیست بکلیۃ وانتفاء کلیتہا یریحک من تاویل کثیر من الاحادیث وقال من سماہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافرا سمیناہ لا فراد لا نذیرہ علی ھذا المقادر ولاتناؤل بشئ منہا لعدم الملجئ الی ذلک واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفا اللہ                                                (سید محمد نذیر حسین)



[1]   جو جانتے بوجھتے نماز چھوڑے وہ کافر ہوگیا ۔

[2]   وہ عہد جو ہمارے اور اُن کے درمیان ہے نماز کا ہے جس نے اس کوچھوڑ دیا وہ کافر ہوگیا۔

[3]    رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نماز کے علاوہ کسی عمل کے ترک کو کفر نہیں سمجھتے تھے۔

[4]    اللہ تعالیٰ کسی کو شرک نہیں بخشیں گے اور اس کےعلاوہ دوسرے گناہ جس کو چاہیں معاف کردیں۔

[5]    جو ان کو ادانہیں کرے  گا اللہ کے پاس اس کا کوئی عہدنہیں چاہے تو اسےسزا دے چاہے تو معاف کردے ۔

[6]    جو آدمی شہادت دے کہ اللہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد ؐ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور عیسیٰ اللہ کے بندے اور اس کاکلمہ ہیں جس کو اس نےمریم کی طرف ڈالا اور اس کی طرف سے روح ہے اور جنت دوزخ حق ہے اللہ اسےجنت میں داخل کرے گا خواہ اس کے عمل کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔

[7]    جوآادمی شہادت  دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اس کےبندے اور اس کے رسول ہیں تو اللہ اس کو آگ پرحرام کردے گا۔

[8]    میری شفاعت انشاء اللہ ہر اس آدمی کو پہنچے گی جواللہ  کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گا۔

[9]    مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کے ساتھ جنگ کرنا کفر ہے۔

[10]   جو آدمی جان بوجھ کر اپنے باپ کا انکار کرے وہ کافر ہے۔

[11]   لوگوں میں دو چیزیں کفر کی نشانی رہ جائیں گی نسب میں طعن کرنا اور میت پرنوحہ کرنا۔

[12]   جو غلام اپنے مالک سے بھاگ جائے وہ کافر ہوگیا۔

[13]   جس نے اپنے بھائی کوکہا ارے کافر وہ خود کافر ہوگیا۔

[14]   شوکانی نے کہا کفر کی کئی قسمیں ہیں ان میں بعض وہ بھی  ہیں جن کی مغفرت ہوسکتی ہے۔جیسے اہل قبلہ کاکفران اعمال کی وجہ سے جن کو شار ع نے کفر کہا ہے اور وہ دلالت کرتا ہے کہ تارک نماز ہمیشہ کے جہنم کا مستحق نہیں ہے تاویل کی تنگنائے میں داخل ہونے کا سبب یہ ہے کہ ہم نے کفر اور عدم مغفرت کو لازم ملزوم سمجھ لیا حالانکہ یہ کوئی کلیہ نہیں ہے اور اس کلیہ کی نفی تجھے بہت سی حدیثوں کی تاویل سے نجات دلادے گی۔ جس کو رسول اللہ ﷺ نے کافر کہا ہے  ہم بھی اس کو کافرکہیں گے اور اس پر کچھ زیادہ نہ کریں گے اور نہ اس کی کوئی تاویل کریں گے کیونکہ اس سے مفر نہیں ہے۔

 


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ