سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(133) نماز عیدین میں ہر تکبیر میں رفع یدین ہونا چاہیے یا

  • 5640
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 1289

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عرصہ بیس برس سے اوپر  ہوا کہ اہل حدیث اور حنفیہ میں نزاع ہوئی اور دو فرقہ ہوگئے ایک فرقہ اہل حدیث نماز جمعہ اور عیدین کی ایک محلہ کی مسجد میں اداکرتے رہے ،اس عرصہ میں ہم لوگوں کو معلوم ہوا کہ نماز عیدین کی صحرا میں ادا کرنا افضل ہے پس اس محلہ کی مسجد کو چھوڑ کر نماز عیدین کی ادا کرنے  کے لیے چند آدمی صحرا میں چلے گئے ہیںاس کے بعد چند آدمیوں نےطعن لعن کی اور توڑنا جماعت کا چاہا اور بعضے علماء نےفرمایا کہ جو شخص بخیال سنت کے صحرا میں جائے گا، ماشاء اللہ ثواب پائے گا اور یہ بھی فرمایا کہ اللہ کا ہاتھ اوپر جماعت کے ہے،جماعت کو مقدم رکھو اور پیسہ کے واسطے جاتے ہو اشرفی چلی جاتی ہے اور بعضے علماء نے یہ فرمایا کہ جس مسجد میں پنجگانہ نماز ادا کی جاتی ہے اس مسجد میں نمازعیدین ادا کرنا مکروہ معلوم ہوتاہے اور یہ بھی فرمایا کہ میرے خیال میں توڑنا جماعت کا نہیں معلوم ہوتا ہے پس ہم کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان دونوں میں ہمارے لیے کون افضل ہے جس کی ہم  پیروی کریں؟

سوال دوم: نماز عیدین میں ہر تکبیر میں رفع یدین ہونا چاہیے یا بغیرتکبیر اولےٰ کے ہاتھ باندھنا چاہیے یا چھوڑ دینا چاہیے سنت سے کیا ثابت ہے ۔ بنواتوجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ لوگوں کے لیے افضل یہ ہے کہ صحرا میں نماز پڑھیں کیونکہ سنت کے مطابق یہی فعل ہے اور محلہ کی مسجد میں بلاعذر پڑھنا خلاف سنت ہے اور اس پر اہلحدیث اور حنیفہ سب کا اتفاق ہے چنانچہ نمونہ کے طور پر دونوں فریق کی دو دو ایک ایک سندیں لکھی جاتی ہیں منتقی میں  ہے:

’’حضرت علی علیہ السلام کہتے ہیں سنت یہ ہے کہ عید گاہ کی طرف پیدل جایا جائے اور عید کی نماز پڑھنے سے پہلے کچھ کھا لیا جائے۔‘‘

اور ہدایہ میں ہے:

’’عیدگاہ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں امام ابوحنیفہ کے نزدیک تکبیریں نہ کہے اور صاحبین کے نزدیک تکبیریں کہے۔‘‘

 نیز شرح وقایہ میں ہے:

’’عید گاہ کی طرف جاتے ہوئے آہستہ آواز سے تکبیریں کہے امام ابوحنیفہ سے جونفی ذکر کی گئی ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ اونچی آواز سے نہ کہے۔‘‘

خاص کو حنفیہ کے نزدیک نماز عیدین کا صحرا میں پڑھنا سنت مؤکدہ ہے ۔

چنانچہ عمدۃ الرعایہ حاشیہ  شرح وقایہ میں ہے:

’’عیدین کی نماز کے لیے جبانہ مقام کی طر ف نکلنا چاہیے ۔ یہ صحرا میں ایک مقام ہے نماز عید کے لیے گھر سے نکل کر باہر جانا تو واجب ہے اور جبانہ میں جانا سنت ہے اگرچہ مسجد وسیع ہو کیونکہ رسول اللہ ﷺ اپنی مسجد میں عیدین کی نماز کے سوائے ایک دفعہ کے (وہ بھی بارش کے عذر سے) نہیں پڑھی حالانکہ  مسجد نبوی کی کتنی فضیلت ہے۔‘‘

مختصراً خلاصہ یہ کہ نماز عیدین کی صحرا میں پڑھنا یہی فعل سنت  کے مطابق ہے لہٰذا اس تقدیر پر لوگوں کا لعن طعن کرنا اور تفریق جماعت کہنا ہرگز صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ بات بہت ظاہر ہے کہ لعن طعن کامحل اور تفریق جماعت کاباعث انسان اس وقت ہوسکتا ہے کہ جب یہ فعل شرو فساد کی نیت سےکرے لیکن اگر ادائے سنت کے ارادے سے کرے تو ہرگز نہیں ہوسکتا  معہذا یہ اعتراض فریق ثانی پر بھی موجود ہے کیونکہ جب جماعت کاقائم رکھنا ضروری ہے تو وہ لوگ بھی کیوں نہیں صحرا میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے تاکہ جماعت بھی قائم رہے اور سنت پر بھی عمل ہو ، علی ہذا القیاس بعض عالموں نے جو یہ فرمایا ہے کہ جماعت پر اللہ کاہاتھ اور اس کو مقدم رکھنا چاہیے اور اشرفی کو چھوڑ کر پیسہ کے واسطے نہیں جانا چاہیے سو یہ قول بھی قابل تسلیم نہیں کیونکہ ان سب باتوں کے لیے شرط یہ ہے کہ حضرت کی سنتوں پر عمل رہے اور اگر یوں ہی جماعت مقدم کی جائے تو ایک روز ایسا ائے گا کہ تمام سنتیں اٹھ جائیں گی اور اہل اسلام خالی ہاتھ رہ جائیں گے ۔ لہٰذا جو حضرات مخالف ہیں ان کو چاہیے کہ وہ اس سنت پرعمل کریں اور تعصب کو راہ نہ دیں کیونکہ  یہ دین کامعاملہ ہے۔

اور تکبیرات عیدین میں رفع یدین نہ کرنا چاہیے کیونکہ ثابت نہیں ہے اور خود حنفیہ نے جس حدیث سے استدلال کیا ہے اس سے ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس میں رفع یدین کاذکر ہی نہیں ہے، چنانچہ حدیث مذکور کے بارے میں اور نیز عدم ثبوت کے بارے میں یوں مرقوم ہے۔

’’اور انہی میں سے عید کی تکبیروں کا مسئلہ بھی ہے پہلے باب صفۃ الصلوۃ میں حدیث گذر چکی ہے اور اس میں عید کی تکبیروں کاذکر نہیں ہے جیساکہ ابویوسف سے روایت کیا گیا ہے کہ عید کی تکبیروں میں ہاتھ نہ اٹھائے جائیں اور نہ ہی جنازہ کی  تکبیروں میں، بلکہ اس میں اتنا ہی کافی ہے کہ عید کی تکبیریں ثابت ہیں اور ان میں ہاتھ..........‘‘

اور بعد تکبیر تحریمہ کے   ہاتھ باندھنے چاہیں۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ  تکبیر کے بعد اصل ہاتھ باندھنا ہے، پس تاوقتے کہ اس کے خلاف ثابت نہ ہو اسی اصل پر عمل ہوگا اور اس اصل کے کلاف ثابت نہیں، لہٰذا اسی اصل پر عمل چاہیے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔حررہ عبدالحق                   (سید محمد نذیر حسین)

ہوالموفق:

فی الواقع عیدین کی نماز صحرا ہی میں پڑھناسنت ہے  اور بلا عذر مسجد میں پڑھنا خلاف سنت ہے۔ رسول اللہﷺ نے عیدیں کی نماز ہمیشہ صحرا میں ہی ادا فرمائی ہے، حالانکہ مسجد نبوی میں ایک نماز اور مقاموں کی ہزار نماز سے افضل ہے ، باوجود اس فضیلت کے کبھی آپ نے بلا عذر مسجد نبوی میں عیدین کی نماز نہیں پڑھی اور نہ  آپ کے بعد خلفائے راشدین نے پڑھی ،حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں:

’’ابوسعید خدری کی حدیث (کہ آنحضرتﷺ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ باہرجاکر پڑھا کرتے تھے)  سے عیدین کی نماز کے لیے صحرا کی طرف نکلنے کے مستحب ہونے پر استدلال کیا گیا ہے اور یہ مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے کیونکہ آنحضرتﷺ نے اسی پر ہمیشگی کی ہے  باوجود مسجد نبوی کی فضیلت کے امام شافعی نے کتاب الامام میں کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعد کے لوگ صحرا میں جاکر نماز پڑھاکرتے تھے ہاں اگر بارش کاعذر ہوتا تو مسجد میں پڑھتے۔‘‘

پس جو لوگ عیدین کی نماز بلا عذر مسجد میں پڑھتے ہیں وہ خلاف سنت کرتے ہیں اور صحرا میں جانے والوں پرلعن طعن کرنا یا ان پر تفریق جماعت کا الزام دینا محض بے جا اور ناروا کام ہے اور عیدین کی ہرتکبیر میں رفع یدین کرنا کسی حدیث مرفوع صحیح سے ثابت نہیں ہے ہاں حضرت ابن عمرؓ کا  ہرتکبیر پررفع یدین کرنا بسند صحیح ثابت ہے  مگر یہ حضرت ابن عمرؓ کا فعل ہے ۔عون المعبود شرح سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 448 میں ہے۔

’’عیدین کی تکبیرات میں ہاتھ اُٹھانا کسی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہے محض ایک صحابی حضرت عمرؓ کا اثر ہے، امام شافعی کہتے ہیں کہ اس بارے میں حدیث مرفوع تو ہے نہیں حضرت عمرؓ نے دوسری نماز کے قیام اور رکوع کی تکبیروں پراس کو قیاس کرکےکہا ہے کہ سجدہ کے علاوہ جب بھی آپ نے تکبیر کہی تو رفع یدین کیا۔‘‘                                   (کتبہ محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفا اللہ عنہ)

 


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ