سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(127) آمین بالجہر امام و ماموم و منفرد کے لیے صلوٰۃ جہر

  • 5634
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-01
  • مشاہدات : 1085

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آمین بالجہر امام و ماموم و منفرد کے لیے صلوٰۃ جہریہ میں کہنا احادیث صحیحہ مرفوعہ غیر منسوخہ سے ثابت ہے یا نہیں۔ اور اس کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آمین بالجہر کہنا حضرت نبیﷺ سے ثابت ہوا ہےجیسا کہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ جب قرأت  فاتحہ سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے آمین کہتے۔‘‘ وائل بن حجر کہتے ہیں کہ ’’رسول اللہﷺ نے غیر المغصوب علیہم ولاالضالین پڑھا تو میں نے خود سنا کہ آپ نےبلند آواز سے آمین کہی۔‘‘

پس ان دونوں حدیثوں سے آمین بالجہر کہنا امام کاثابت ہوا،لیکن منفرد پس حکم منفرد اور امام کا ہر چیز میں واحد ہے جیساکہ  احادیث صحیحہ مرفوعہ سے ثابت ہے ،پس جب کہ ثابت ہوا واسطے امام کے ثابت ہوا واسطے منفرد کے باقی رہا حکم مقتدی  کا، پس لکھتا ہوں میں کہ مقتدی کا بھی آمین پکار کےکہنا حدیث مرفوع سے مستنبط ہے، اس واسطے کہ روایت ہے ابن عباس ہے۔ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ما حسدتکم الیہود علی شئ ما حسدتکم علی آمین فاکثروا من قول امین رواہ ابن ماجہ یعنی فرمایا حضرت نےکہ نہیں حسد کیا  یہود نے  تم لوگوں کے ساتھ کسی فعل کے کرنے سے ، جسقد رکہ حسد کرتے ہیں تم لوگوں کے آمین کہنے سے ، پس بہت کثرت کرو آمین کہنے کی اور ظاہر ہے کہ جب تک آمین بالجہر کہی نہ جائے اور کانوں تک یہود کے آواز اس کی نہ پہنچے ، جب تک صورت حسد کی نہیں ہوسکتی اور امام بخاری نے باب جہر الماموم بالتابین میں روایت کی ہے ۔

حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ ’’رسولاللہ ﷺ نے فرمایا جب امام غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے متحد ہوجائے گی، اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔‘‘

پس لفظ  قولوا سے جہر قول بالتامین مراد ہے اور مؤید اس کے ہے عمل حضرت ابوہریرہؓ کا کہ روایت کیا اس کو شیخ بدر الدین عینی کے کتاب عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں بیہقی سے : ’’حضرت ابوہریرہؓ مروان کے مؤذن تھے آپ نے اس سے شرط کرلی تھی کہ مروان اس وقت تک  ولا الضالین نہ پڑھے گا جب تک کہ ابرہریرہؓ صف میں شامل نہ ہوں گے۔ جب مروان والالضالین کہتا تو حصرت ابوہریرہؓ بلند آواز سے آمین کہتے اورفرماتے جب زمین والوں کی آمین آسمان والوں کی آمین سے مل جاتی ہے تو ان کو بخش دیا جاتا ہے۔‘‘

امام ترمذی کہتے ہیں: ’’وائل بن حجرؓ کی حدیث حسن ہے ، بہت سے اہل علم صحابہ تابعین اوربعد کےلوگوں کا یہی ارشا د تھا کہ آدمی بلند آواز سے آمین کہے ، آہستہ نہ کہے،امام شافعی ، احمد بن حنبل اور اسحاق وغیرہ کا یہی مذہب ہے۔‘‘                             (سیدمحمدنذیر حسین)


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ