سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(126) ہم لوگ عاملین سنت کے زمرہ میں ہیں یا نہیں؟

  • 5633
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1539

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم لوگ چونکہ متبع امام ابوحنیفہ کے ہیں، اور امام مالک کے نزدیک ستر کو ہاتھ لگ جانے سے وضو ساقط نہیں ہوتا ہے، پس ہم لوگ غسل میں اوّل وضو کرلیتے ہیں ،پھر تمام بدن کو دھوتے ہیں ، پھر اس وضو سے نماز پڑھتے ہیں، آیا یہ غسل اور وضو ٹھیک ہے یا نہیں اور نماز  میں زیر ناف ہاتھ باندھتے ہیں اور قیام کی حالت میں دونوں پاؤں کے درمیان چار یا چھ انگشت کافاصلہ رکھتے ہیں اور امام کے پیچھے الحمد نہیں پڑھتے اور جب امام الحمد ختم کرتا ہے توآمین آہستہ کہتے ہیں،جہر  سے نہیں کہتے اور تشہد میں بائیں پاؤں پر بیٹھتے ہیں اور تورک نہیں کرتے اور حسب روایات عدم رفع اور نسخ روایات رفع الیدین کے رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سراٹھاتے وقت رفع الیدین نہیں کرتے اور جمعہ کے دن خطبہ ہوتے وقت تحیۃ المسجد نہیں پڑھتے اور وتر تین رکعت پڑھتے ہیں، ایک رکعت نہیں پڑھتے اور فجر کی جمات فرض ہوتے ہوئے اگر ایک رکعت میں شامل ہوجانے کی بھی امید ہو تو فجر کی سنتیں مسجد کی کسی جانب میں پڑھ لیتے ہیں، بعد اس کے فرض نماز کی جماعت میں شامل ہوتے ہیں ، آیا ان سب صورتوں میں ہم لوگ عاملین سنت کے زمرہ میں ہیں یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ردالمستعان ہو اللہ العلی الوہاب،بعد حمد و صلوۃ کے واضح ہو کہ آپ صاحبان کا یہ کہنا کہ ہم لوگ امام ابوحنیفہ کے متبع ہیں، محض ایک قول ہے جس کے معنی کچھ نہیں ہیں، کیونکہ امام صاحب کا متبع وہ ہوسکتا ہے جو ان کے حکم پر چلے اور آپ صاحب ان کے حکم پرچلتے نہیں یعنی وہ فرماتے ہیں کہ کسی کو جائز نہیں ہے  کہ میرے کسی قول پر فتویٰ دے ، جب تک یہ معلوم نہ کرلے کہ میں نے وہ قول کس دلیل سے کہا ہے دیکھو،عقد الجید وفتح المبین وغیرہ، جس کا مطلب یہ ہوا کہ دینیات میں عمل کا مدار میرے قول پر نہ رکھنا بلکہ دلیل یعنی قرآن و حدیث پر رکھنا اورآپ صاحبوں نے سارا مدار قول ہی پررکھا، کہتے ہیں چونکہ ہم حنفی ہیں، اس لیے ہم یوں کرتے ہیں، چونکہ امام صاحب نےفلاں حکم دیا ہے، اس لیےہم یوں کرتے ہیں، امام صاحب فرماتے ہیں کہ میرے جس قول کو حدیث کے خلاف دیکھو، اس کو چھوڑ دینا، آپ صاحب حدیث کی مخالفت کے وقت ان کےقول کونہیں چھوڑتے ہیں بلکہ حدیث کو چھوڑتے ہیں ۔ امام صاحب اپنی تقلید کو مستحب بھی نہیں فرماتے، آپ صاحب اس کو فرض و واجب بتلاتے ہیں پھر اس ضد اور عکس کا نام اتباع رکھنا سراسر زبردستی نہیں ہے تو اور کیا ہے۔

ببین تفاوت راہ ازکجا است تا بکجا

مسائل کا جواب مختصراً یوں ہے کہ ستر کو ہاتھ لگ جانے کے بارے میں دونوں طرف روایتیں موجود ہیں، یعنی بعض حدیثوں میں آیا ہے کہ اس سے وضو ساقط ہوجاتا ہے اور بعض میں آیا ہے کہ ساقط نہیں ہوتا اور دونوں قسم کی روایتیں اچھی ہیں، ہاں اتنی بات ہے کہ وضو کے ساقط ہوجانے کے بیان والی حدیث چونکہ از روئے سند کے زیادہ قوی ہے، ترمذی نے اس کو حسن صحیح کہا ہے اور امام اوزاعی، شافعی، احمد، اسحاق، بخاری، ابوزرعہ، ابوداؤد، ابن ماجہ،  ابن خزیمہ، ابن حبان، یحییٰ بن معین، بیہقی، حازمی وغیرہم حفاظ اورائمہ رحمہم اللہ نےاس کو صحیح بتایا ہے ،دیکجھو ترمذی جلد 1 صفحہ 13 کتاب الوضو اور دارقطنی صفحہ 54 اور التلخیص الجیر صفحہ 44 اور نیل الاوطار صفحہ 192 جلد اوّل وغیرہ اور دوسری جانب کی حدیث میں کس قدر ضعف ہے جیساکہ دارقطنی اور اس کی شرح مغنی صفحہ 54 میں اور تلخیص صفحہ 46 وغیرہ میں ہے کہ امام شافعی ،ابوحاتم، ابوزرعہ،دارقطنی،بیہقی، ابن جوزی وغیرہم رحمہم اللہ نے اس کو ضعیف کہا ہے ۔ دوسرے یہ کہ پہلی حدیث پرعمل کرنے میں احتیاط بھی ہے۔ اس لیے اولیٰ اور افضل تو یہ بات ہے کہ اگر ستر کو ہاتھ لگ جائے تو پھر وضو کرلے اور اگرنہ کرے تو بوجہ دوسری حدیث کے جائز اور معاف ہے ، کچھ  جائے اعتراض نہیں ہے۔

اور نماز میں ہاتھ  باندھنے کے بارے میں یہ بات ہےکہ زیرناف کی حدیثوں کو امام احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے لیکن دونوں صاحبوں نے ان کو ضعیف بھی بتایا ہے اس بارے میں ایسی حدیث ایک بھی نہیں آئی ہے کہ مرفوع بھی ہو اور صحیح بھی ہو ،اور سینہ پر ہاتھ باندھنے کی حدیث کو ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے اور اس کو صحیح بھی بتایا ہے اور امام احمد  نے قبیصہ بن ہلب سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ سینہ پرہاتھ باندھا کرتے تھے اور یہ حدیث حسن ہے اور حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ نے فرمایا ہے کہ آیت فصل لربک وانحر نماز میں ہاتھ باندھنے کے بارے میں آئی ہے، دیکھو دارقطنی اور اس کی شرح مغنی صفحہ 106 اور بیہقی اور حاکم نے بھی کہا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس ایت کی یہی تفسیر کی ہے اور بیہقی نے اس تفسیر کو ابن عباس ؓ سے بھی روایت کیاہے اورسندیں ان سب روایتوں کی محفوظ ہیں یعنی ان میں کچھ طعن نہیں ہے۔دیکھو نیل الاوطار جلد دوم صفحہ 106 اور یہ ظاہر بات ہے کہ نحر کا لفظ گردن کے قریب پر صادق آسکتا ہے ، زیر ناف پر صادق نہیں آسکتا اور گردن کے قریب قب ہی ہوں گے جب کہ سینے پر باندھے جائیں ، پس جب زیر ناف کی کوئی حدیث مرفوع اور صحیح نہیں آئی اور فوق الصدر کی حدیثیں مرفوعہ صحیحہ موجود ہیں اور تفسیر صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم سے بہ سند صحیح اس کی تائید ہوتی ہے اور صحابہ میں وہ جن کا علم و فضل مشہو رہے تو اس صورت میں اولیٰ اور سنت ثابتہ تو یہی ہوا کہ  سینہ پر ہاتھ باندھے جائیں اور زیر ناف ہاتھ باندھنا ایسا ہوا کہ خیر یوں بھی جائز ہے اور چنداں جائے اعتراض نہیں ، اس لیے کہ کچھ سندا اس کی بھی ہے۔

اور قیام میں درمیان دونوں پاؤں کے چار یاچھ انگشت کا فاصلہ رکھنے کا حکم نہ کسی آیت میں  ہے نہ کسی حدیث صحیح یا ضعیف میں اس کابیان ، حدیثوں میں تو یوں آیا ہے کہ نبیﷺ جماعت کے وقت حکم فرمایا کرتے تھے کہ خوب مل کر کھڑے ہو اور ایک دوسرے کے درمیان فاصلہ اور فرجہ نہ چھوڑو۔ اس کی تعمیل صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم یوں کرتے تھےکہ ایک نمازی اپنے پاؤں کو دوسرے نمازی سے ملا دیتا ہے دیکھو صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ ابواب تسویۃ الصفوف صفحہ92 جلد 1، اور  یہ صورت یعنی ایک شخص کا قدم دوسرےشخص کے قدم سے ملنا تب ہی ہوگا جب کہ ہرآدمی اپنے دونوں پاؤں کے درمیان کم اس کم ایک بالشت کا فاصلہ رکھے ،آسانی تو اس سے بھی زیادہ  فاصلہ رکھنے میں ہوتی ہے مگر اقل مرتبہ اتنا صروری ولابدی ہے،اور ایک بالشت اوسط درجہ بارہ انگشت کی ہوتی ہے ،پس یہ حدیث صحیح صاف طور پر چار یا چھ انگشت کے فاصلہ کی تردید کرتی ہے ، اب رہا وہشخص جواکیلا نماز پڑھے، سو اس کے واسطے کسی حد کا بیان کسی حدیث میں نہیں آیا ، لہٰذا جس شخص کو جتنے فاصلہ میں آسانی معلوم ہو، اسی قدر فاصلہ رکھے۔

اور مقتدی کو الحمد پڑھنے کا مسئلہ طویل البحث ہے اور اس کی بابت بے شمار کتب اور رسائل تالیف ہوچکے ہیں جن کا حصر و احاطہ نہیں ہوسکتا، میں اس موقع  پر بہت مختصر بقد رکفایت لکھے دیتاہوں ، وہ یہ ہے کہ اگرچہ اس بارے میں علماء کے کئ مذہب ہیں، جیسا کہ تفسیر معالم وغیرہ میں تحت آیت واذا قرئ القرآن الخ میں مذکور ہے لیکن سیدھی اور پکی بات یہ ہےکہ بدون الحمد کےنماز نہیں ہوتی، کیونکہ فرمایا نبیﷺ نے  لاصلوۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب یعنی جو شخص الحمدنہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ یہ حدیث مشکوٰۃ باب القراء ت فصل اوّل میں ہے اور متفق علیہ ہے اور جو حدیث متفق علیہ ہوتی ہے اس کادرجہ صحت اورقوت میں سب سے زیادہ ہے۔ دیکھو نخبۃ الفکر مطبوعہ نظامی  صفحہ 15 و 16 وغیرہ اور یہ بات ایسی مقبول و مضبوط ہے کہ تخمیناً گیارہ سو برس سے اہل سنت والجماعت کے لاکھوں علماء اتفاق و اقرار کرتے چلے آئے ہیں ،معتبر اور مستند لوگوں میں سے کوئی اس کا مخالف نہیں ہوا ہے جب کہ یہ حدیث اعلیٰ درجہ کی صحیح ہوئی،تو پھر اس بات کاکھٹکا ہی نہیں رہا کہ حدیث کیسی ہے اورواجب العمل ہے یانہیں ہے۔ صرف یہ بات باقی رہی کہ اس میں حکم کیابیان ہوا ہے، سو حکم اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ جو شخص الحمد نہ پڑھے  اس کی نماز نہیں ہوتی، اس میں نہ کسی کی خصوصیت ہے نہ کسی کا استثناء ہے پس ہر ایک نماز ی کو ہر قسم کی نماز میں الحمد کا پڑھنا ضروری ہوا یعنی وہ نمازی منفرد ہو یا امام یامقتدی یامرد یاعورت اور وہ نماز فرض ہو یانفل، یا رات کی یا دن کی یا حضرکی یا سفر کی یا صحت کی یا مرض کی یاجہری یا سری اورایسی صحیح اور عام اورجامع حدیث کے بعد اس بات کی ضرورت تو نہیں ہے کہ مقتدی کی خصوصیت اور صراحت کے ساتھ الحمد پڑھنے کاحکم تلاش کیاجائے لیکن اتفاقاً  ایسی حدیث بھی چونکہ موجو دہے اس لیے وہ بھی پیش کرتا ہوں، عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ایک دن فجر کی نماز پڑھائی اور آپ کو اپنی قراء ت میں خلجان ہوا، نماز کےبعد آپ نےمقتدیوں سےپوچھا کہ تم امام کے ساتھ قراءت پڑھتے ہو، انہوں نے عرض کیا کہ ہاں یارسول اللہ ﷺ ہم جلدی جلدی پڑھتے جاتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ کچھ مت پڑھا کرو، صرف الحمد پڑھ لیا کرو کیونکہ اس کے بدون نماز نہیں ہوتی، یہ حدیث دارقطنی مطبوعہ فاروقی صفحہ 120 میں ہے، دارقطنی نےکہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے اور دوسرے صفحہ میں اس مضمون کی حدیث کو کہا ہے کہ ابوداؤد میں بھی اسی سند سے آئی ہےجس کے راوی ثقہ ہیں اور ترمذی میں بھی ہے اور ترمذی نےکہا ہے کہ اس کے سب راوی ثقہ ہیں، خطابی نے کہا کہ سند اس حدیث کی جید ہے، اس میں کوئی راوی ایسا نہیں جس پرطعن ہوسکے،حاکم نے کہا کہ سند اس حدیث کی ٹھیک اورثابت ہے، تخریج ہدایہ مطبوعہ فاروقی صفحہ 94 اور امام بخاری نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھو جزء القراء ۃ فاروقی صفحہ 32 وغیرہ، ابن حبان اور حاکم اوربیہقی نے بھی کہا ہے کہ حدیث قرا ءت خلف الامام کی صحیح ہے ۔ دیکھو التلخیص الجیر مطبوعہ انصاری صفحہ 87۔

بعض حضرات ان حدیثوں میں کچھ جرح کرتے ہیں مگر محققین نے جوابات شافی سے ان جرحوں کو بخوبی اٹھا دیا ہے اگر زیادہ نہیں  توجس کا  جی چاہے وہ رسالہ تعلیم المبتدی مؤلفہ مولوی محمد سعید صاحب بنارسی ہی کومطالعہ کرکے اس بات کی جانچ کرلے، مجھ کو اس موقع پراتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ یہ حفاظ و ائمہ حدیث جن کا میں نے اس جگہ حوالہ دیا ہے ، دنیا میں ایسا کون ہے جس کی بات اس جماعت کی بات کو باطل اور بے کار کرسکے۔ ایک اکیلے بخاری  ہی کو اللہ پاک نے اس فن میں وہ مرتبہ عطا فرمایا ہے کہ ان کی مخالفت لوہے کے چنے چبانے ہیں اور جب کہ اور بھی کتنے ہی حفاظ و ائمہ ان کے ساتھ ہوں تو پھر اس بات کاٹوٹنا کہاں اور جب حدیث عام بھی موجود ہے اور خاص بھی اور دونوں صحیح بھی ہیں اور دونوں میں صاف اور صریح لفطوں سے یہ بیان ہے کہ جوکوئی الحمد نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی تو اب کسی قسم کے نمازی کو کسی قسم کی نماز میں الحمد پڑھنے سے معافی یا ممانعت تب تک نہیں ہوسکتی  جب تک کہ  کسی روایت میں یا کسی حدیث صحیح میں اس کا بیان نہ آئے۔ سو یہ لفظ کہ مقتدی الحمد نہ پڑھے نہ کسی آیت میں آیا ہے نہ کسی حدیث میں، جن حضرات کا یہ مذہب ہے کہ مقتدی الحمد نہ پڑھے ۔ انہوں نے جس قدر دلیلیں اپنے مذہب کی تائید میں پیش کی ہیں ان میں کوئی آیت صریح یا حدیث صحیح صریح تو ہے ہی نہیں کچھ کچھ تاویلیں کرکے سورہ اعراف کی ایت واذا قرئ القرآن الخ کو اور ایک دو حدیث کو اور بعض قول صحابہؓ کو اپنے دعوے پر منطبق کیا ہے۔ سو اوّل تو کسی تاویل کی یہ شان نہیں کہ کسی تصریح کا مقابلہ کرسکے چہ جائے کہ قرآن و حدیث کی تصریح و تاویل کیونکہ اس کی تصریح حکم ربانی ہے اور اس کی تاویل رائے و قیاس انسانی، پھر  بھلا وہ کہاں اور یہ کہاں ، دوسری بات یہ ہے کہ جواب دینے والوں نےبہت پر روز تقریروں سے ان تاویلوں کو اٹھا دیا ہے ، سب کوتو کوئی  کیا دیکھ سکتا ہے مگر جس کا جی چاہے وہ پہلی کتابوں میں سے صرف رسالہ جزء القراءۃ مؤلفہ امام بخاری  کو اور  پچھلی کتابوں میں سے رسالہ ہدایت المعتدی مؤلفہ مولوی عبدالعزیز صاحب رحیم ابادی اور تعلیم المبتدی مؤلفہ مولوی محمد سعید صاحب بنارسی کو غور و انصاف کی نظر سے مطالعہ کرے ، انشاء اللہ تعالیٰ کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے گا کچھ طول طویل کتایں نہیں ہیں مختصرا رسالے میں ان کی تمام سیرد د چار دن میں بہت آسانی اور اطمینان سے ہوسکتی ہے ،ہدایت تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ، مگر تحقیق ماشاء اللہ ایسی ہوگئی ہے کہ شاید و باید۔

اور آمین کے مسئلہ میں بھی یہ بات ہےکہ جہر کی حدیثیں تو ایسی موجود ہیں جو صحت کو پہنچ گئی ہیں اور خفیہ آمین کی کوئی حدیث بھی ایسی موجود نہیں ہے جو صحت کو پہنچ گئی ہو، چنانچہ ابوداؤد مطبوعہ قدیم شاہدرہ جلد اوّل صفحہ 134 میں وائل میں حجر ؓ سے روایت ہے۔ انہ صلی خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فجہر بامین یعنی وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرتﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ، سو آنحضرت ﷺ نے آمین جہرسے کہی ، نیل الاوطار جلد دوم صفحہ 117 میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت سے یہ لفظ ہیں کہ آنحضرت ﷺ اتنی آواز سے آمین کہتے تھے کہ پہلی صف میں سے قریب کے لوگ سن لیتے تھے اور ابن ماجہ کا یہ لفظ ہے کہ  پہلی صف والے  سن لیتے تھے اور آمین کی آواز سے مسجد میں گونج ہوجاتی تھی،  اس حدیث کے بعض راوی ضعیف ہیں لیکن ایسا راوی ایک بھی نہیں ہے کہ اس کے ضعف پر سب محدثین کا اتفاق ہو، دیکھو کتب اسماء الرجال اور دارقطنی نےبھی آمین بالجہر کی حدیث کو روایت کیا ہے اور کہا کہ سند اس کی حسن ہے اورحاکم نے بھی روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ سنداس کی صحیح ہے اوپر شرط بخاری و مسلم کے اور بیہقی نے بھی روایت کیا ہے اور کہا کہ حسن صحیح ہے۔ دیکھو سبل السلام شرع بلوغ المرام مطبوعہ فاروقی جلد اوّل صفحہ 108 اور نیل الاوطار جلد دوم صفحہ 117 والتلخیص الجیر صفحہ 89 وغیرہ اور صحیح بخاری مطبوعہ مصر جلد اوّل صفحہ 98 میں عطار سے منقول ہے کہ ابن زبیر وغیرہ سرداروں اور اماموں کا مکہ معظمہ میں یہ طریق دیکھا ہے کہ امام اور مقتدی زور  سے آمین کہا کرتے تھے جس سے مسجد حرم گونج جاتی تھی اور آہستہ آمین کہنے کی ایک حدیث بھی ایسی نہیں آئی جس کو  حفاظ اور ائمہ حدیث نے صحیح کہا ہو، اس لیے مولانا بحر العلوم حنفی لکھنوی نے اپنی کتاب ارکان مطبوعہ علوی صفحہ 76 میں لکھا ہے کہ آہستہ آمین کہنے کے بارے میں سوائے ایک حدیث ضعیف کے کوئی روایت نہیں آئی اور جب یہ صورت ہے کہ جہر کی روایتیں صحیح سند سے موجود ہیں اور آہستہ کی کوئی روایت صحیح  نہیں تو اولےٰ اور افصل تو یہی ہوا کہ آمین جہر سے کہی جائے اور اگر کوئی آہستہ بھی کہہ لے تو خیر اس پر کچھ اعتراض نہ کیا جائے اس موقع میں یوں کہنا ٹھیک نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے جہر سے کہے ، جس کا جی چاہے آہستے کہے کیونکہ یہ ایسے موقع پر ہو سکتا ہے جہاں دونوں طرف کی روایتیں ایک درجہ کی ہوں یا بہت تھوڑی کمی بیشی ہو، ہاں اگر کوئی حدیث آہستہ آمین کہنے کی صحیح سند سے موجود ہو اورمیں نے اس  کو ظاہر نہیں کیا ہو تو جن صاحب کے پاس ہو وہ پیش کریں۔

اور تشہد میں بیٹھنے کی یوں بات ہے کہ دونوں طرف کی حدیثیں صحیح ہیں یعنی وہ حدیثیں بھی جن میں یہ تصریح نہیں کہ آخر کے قعدے میں تورک کرتے تھے بلکہ مطلقاً یہ بیان ہے کہ قعدے میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پربیٹھتے تھے اور جس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ پہلے قعدے میں پاؤں پر بیٹھتے تھے اور آخری کے قعدے میں تورک کرتے وہ بھی صحیح سندوں سے آئی ہیں، لہٰذا نمازی کو اختیار ہے چاہے پاؤں پربیٹھے ،چاہے تورک کرے،ہاں تورک کے بیان والی حدیث چونکہ اوّل تو مقید ہے اور عام تورک کی مطلق اور مطلق کا مقید پر محمول کرنا واجب ہے دوسرے از روے سند کے بھی اعلیٰ ہے اس لیے تورک کو ترجیح ہے۔ دیکھو نیل الاوطار صفحہ168۔

اور رفع الیدین کی باتیوں ہے کہ تکبیر تحریمہ میں اور رکوع میں جاتے ہوئے اوررکوع سے سر اٹھتے وقت رفع یدین کرنا نبی ﷺ سے متفق علیہ حدیث سے ثابت ہے لفظ یہ ہیں: عن[1] ابن عمر کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یرفع یدیہ حذو منکبیہ اذاافتتح الصلوٰۃ واذاکبر للرکوع واذا رفع رأسہ من الرکوع متفق علیہ سبل السلام مطبوعہ فاروقی جلد اوّل صفحہ 104 اور یہ بات پہلے الحمد کے مسئلہ میں بیان ہوچکی ہے کہ متفق علیہ حدیث کا درجہ صحت و قوت میں سب سے اعلیٰ ہے اسی لیے علی بن المدینی نے کہا ہے کہ رفع الیدین کی حدیث سب کے اوپر حجت ہے کیونکہ اس کی سند میں کسی  کو کوئی موقع کسی طرح کے عذر کا نہیں ہے، دیکھو تلخیص صفحہ 81،اور رفع الیدین کی حدیث صحیح سندکے ساتھ حضرت ابوبکر ؓ کی روایت سے بیہقی میں اور حضرت عمر ؓ سے دارقطنی میں اور حضرت ابوہریرہؓ  سے ابوداؤد میں اور عبداللہ بن زبیر و عبداللہ بن عباس و ابو موسیٰ اشعری و براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے دارقطنی و نسائی و ابن ماجہ و بیہقی وغیرہ میں آئی ہیں، دیکھو تلخیص صفحہ  82،اور حضرت علی ؓ سے ترمذی جلد دوم کتاب الدعوات صفحہ 199 میں آئی ہے ۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ  جس قدر صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین رفع الیدین کی حدیث کے راوی ہیں غالباً کسی حدیث کے اتنے راوی نہ ہوں گے، ابن منذر نے کہا ہے کہ اہل علم نے اس بات میں اختلاف نہیں کیاکہ رسول اللہ ﷺ رفع الیدین کیا کرتے تھے امام بخاری نے کہاکہ صحابہ رضوان اللہ علیہم میں سے سترہ شخص سے رفع الیدین کی روایت آئی ہے، بیہقی نے تیس کی شمار کی ہے، حاکم نے کہا ہے کہ اس روایت پرعشرہ مبشرہ کا اور دیگربڑے  بڑے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کا اتفاق ہوا ہے اور بخاری نے بیان کیا ہے کہ حسن بصری اور حمید بن ہلال نےکہا ہے کہ تھے اصحاب رسول اللہ ﷺ رفع الیدین کرتے، ان میں سے کسی کو بھی مستثنیٰ نہیں رکھا، بخاری کہتے ہیں کہ کسی صحابی کی بابت یہ ثبوت نہیں ہوتا کہ وہ رفع الیدین نہیں کیا کرتے تھے اور بیہقی نے اس حدیث میں یہ لفظ بھی روایت کیا ہے کہ نبیﷺ ہمیشہ وفات تک اسی طور نماز پڑھتے رہے یہ سب بیان تلخیص صفحہ 81 و صفحہ 82 و نیل الاوطار جلد دوم صفحہ 68 میں ہے۔

آپ صاحبوں نے جو فرمایا کہ جب روایت عدم رفع الخ اس کا تو حال یہ ہے کہ عدم رفع میں بہت اعلیٰ درجہ کی روایت ترمذی والی ہے جس کو امام ترمذی نے حسن بھی کہا ہے ،سو  اس کا مقابلہ ایک تو یہ ہے کہ خود ترمذی نے اسی باب میں عبداللہ بن مبارک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ رفع الیدین کی حدیث ثابت ہے اور عبداللہ بن مسعودؓ والی حدیث عدم رفع یدین کی ثابت نہیں ہوئی، پھر ترمذی نے اس پر کچھ کلام نہیں کیا، دیکھو ترمذی جلد اولصفحہ 36 دوسرے یہ کہ ابن ابی حاتم نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے اور امام احمد بن حنبل اور ان کے استاد یحییٰ بن آدم اور بخاری اور ابو داؤد اور دارقطنی اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہم ن بھی اس کو ضعیف اور غیر ثابت کہا ہے ، دیکھو تلخیص صفحہ 83۔ پس ایک دو امام کا قول اتنے اماموں کے مقابلے میں اور وہ بھی ایسے جو  ترمذی کے استادوں کے استاد ہیں مستند نہیں ہوسکتا اور دوسری روایت محمدبن جابر کی سند سے ہے، سو اس ک وامام احمد نے کہا کہ کوئی شئے نہیں ہے اور ابن جوزی نے کہا کہ موضوع ہے، دیکھو تلخیص صفحہ 83۔ غرض عدم رفع کی کوئی حدیث ایسی نہیں ہے جس کودو چار حفاظ و ائمہ حدیث نے بھی صحیح کہا ہو اور دوسروں نے اس پر جرح نہ کی ہو اور جب یہ حال ہے تو سنت یہی ہوا کہ رفع الیدین کیا جائے اور اگرکوئی نہ کرے تو بوجہ دوسری جانب کی روایات ضعیف کے اس پر کچھ اعتراض نہ کیا جائے۔ اور یہ جو آپ نےفرمایا کہ حسب روایات نسخ کے سو نسخ کی یہ بات ہے کہ معتمد و مستند وحفاظ ائمہ حدیث میں سے کسی نے اس رفع الیدین کی حدیث کو منسوخ نہیں کہا ہے اور جس حدیث کو حنفی صاحب اس کا ناسخ بتلاتے ہیں ، وہ التحیات کے بعد سلام کے بارے میں ہے اس کو اس کے نسخ سے کچھ تعلق نہیں ہے جیسا کہ محمد بن اسماعیل امیر نے ، اور امام نووی نے اور حافظ ابن حجر نے کہا ہے، دیکھو سبل السلام جلد اولصفحہ 104 و صحیح مسلم مع نووی جلد اوّل صفحہ 181،اور تلخیص صفحہ 82، اور بخاری  نے کہا ہے کہ جو لوگ اس رفع الیدین کو حدیث مسلم مالی[2] اراکم رافعی ایدریکم الخ سے منسوخ بتلاتے ہیں ان کو علم کا کوئی حصہ نصیب نہیں ہوا ہے کیونکہ تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ وہ حدیث تشہد کےبعد سلام پھیرنے کے بارے میں ہے دیکھو تلخیص صفحہ 83۔

اور جمعہ کے دن خطبہ ہوتے وقت تحیۃ المسجد وغیرہ پڑھنے کی یہ با ت ہے کہ حدیث متفق علیہ میں یہ بیان موجود ہے کہ ایک جمعہ کونبیﷺ خطبہ پڑھ رہے تھے ایک شخص آیا اور بیٹھ گیا آپ نے پوچھا کہ تم نے کچھ نماز پڑھ لی ہے، انہوں نے عرض کیا کہ نہیں آپ نےفرمایا کہ اُٹھو اور دو رکعتیں پڑھ لو، دیکھو سبل السلام جلد اوّل صفحہ 162، اس حدیث سے اور اس بیان والی اور حدیثوں سے اکثر محدثین نے مراد یہ لی ہے کہ یہ تحیۃ المسجد تھی، لیکن کسی حدیث میں تحیۃ المسجد کا لفظ صراحۃ نہیں آیا ہے اور ابن ماجہ کی ایک روایت میں یہ لفظ ہے اصلیت رکعتین قیل ان تجئ یعنی آنے سے پہلے تو نےدو رکعت پڑھ لی ہیں یا نہیں، اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ قبل از جمعہ کے سنتیں مراد ہیں، تحیۃ المسجد مراد نہیں کیونکہ تحیۃ المسجد کا موقع آنے کے بعد ہوا کرتا ہے، آنے  سے پہلے نہیں ہوتا اور سند اس حدیث کی صحیح ہےاور ابن تیمیہ نے یہی مطلب اس حدیث کا بیان کیا ہے ، دیکھو نیل الاوطار جلدسوم صفحہ 136، مگر میں اس بحث سے قطع نظر کرکے یوں کہتا ہوں کہ خواہ سنت قبل از جمعہ سمجھو ، خواہ تحیۃ المسجد سمجھو، جب ان کا پڑھوانا حالت خطبہ میں خود آنحضرت ﷺ سے ایسی حدیث سے ثابت ہے جو اعلیٰ درجہ کی صحیح ہے اور بعض حضرات جو یوں بیان کرتے ہیں کہ جتنی دیر میں اس آنے والے نے دو رکعت پڑھیں، آپ خطبہ سے خاموش رہے وہ محض ضعیف ہے، دیکھو نیل الاوطارجلد سوم صفحہ 132۔

اور وتر  کی بات یوں ہےکہ صحیح حدیثوں میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے ایک رکعت وتر پڑھنے کا حکم بھی دیا ہے اور خو دبھی پڑھا ہے ، دیکھو نیل الاوطار جلد دوم صفحہ 276 و 279 ۔ اور تین رکعت  بھی وتر پڑھے ہیں لیکن دو تشہد نہیں کئے، صرف ایک تشہد آخر میں کیا ہے اور پانچ اور سات اور نو رکعت بھی وتر پڑھے، دیکھو نیل الاوطار جلد دوم، صفحہ 282 اور دارقطنی مع شرح صفحہ 171 و 172 وغیرہ پس خلاصہ مطلب اور لب لباب وتر کی بحث کا یہ ہے   کہ جس کا  جی چاہے ایک رکعت وتر پڑھے ، چاہے تین رکعت پڑھے ،چاہے پانچ رکعت پڑھے، چاہے سات رکعت پڑھے، چاہے نو رکعت پڑھے، سب طرح سنت ہے اور ایک اور تین اور پانچ رکعت میں ایک تشہد کرے اور سات اور نو میں دو ، دو تشہدکرکے اور کبھی کسی طرح اور کبھی کسح طرح پڑھتا رہے، ان میں سے کسی خاص عدد کو مثلاً ایک کو یا تین کو ہمیشہ لازم کرلینا اور دوسرے عدد کو ہمیشہ  چھوڑے رکھنا خلاف سنت ہے ، اور تین رکعت وتر میں دو تشہد کرنا بھی خلاف سنت ہے کیونکہ کوئی حدیث صحیح بلکہ کوئی قول یافعل صحابہ رضوان اللہ علیہم سے یہ سند صحیح ایسا نہیں ہے جس میں صریح دو قعدے یا دو تشہد کالفظ موجود ہو، اگر کوئی صاحب لاسکتے ہوں تو ضرور لائیں اور دکھلائیں اور صحیح سند سے اور صریح لفظوں سے ہوگی تو انشاء اللہ تعالیٰ بسر و چشم قبول ہے اور اگر نہ ہوئے اور فی الحقیقت نہیں ہے تو سنت کے خلاف ہونے میں کیا کلام ہے۔

اور فجر کی سنتوں کو جماعت فرض کے ہوتے ہوئے پڑھنے کی بات یوں ہے کہ فرض کی جماعت ہوتے ہوئے سوائے اس فرض کے کوئی نماز پرھنی جائز نہیں ہے خواہ سنت فجر ہو ، خواہ کوئی اور نماز ہو اور کسی وقت کے فرض کی نماز ہو، سب کا ایک ہی حکم ہے ، اس لیے کہ فرمایانبی ﷺ نے اذا اقیمت الصلوٰۃ فلا صلوۃ المکتوبۃ ترمذی مطبوعہ احمدی جلد اول صفحہ 59 یعنی جب کسی فرض نماز کی تکبیر ہوجائے تو پھر سوائے اس فرض نماز کے اور کوئی نماز نہیں ہے، اس میں ہر قسم کے نمازی کی نماز آگئی اور یہ حدیث صحیح ہے، بخاری نے اس کو ترجمۃ الباب میں ذکرکیا ہے اور حافظ ابن حجرنے فتح الباری میں کہا ہے کہ اس حدیث کومسلم اور ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ نے روایت کیا ہے ، دیکھو فتح الباری پارہ سوم صفحہ 368 اور فتح الباری کے اسی پارہ صفحہ 369 میں ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے بیان کیا کہ میں سنتیں پڑھ رہا تھا پھر تکبیر شروع ہوئی تو نبیﷺ نے مجھ کھینچ لیااور فرمایا کہ صبح کی چار رکعتیں پڑھے گا۔

اس حدیث کو ابن خزیمہ اور ابن حبان وغیرہ نے روایت کیا ہے ، پس جب کہ نبیﷺ نے عام حکم بھی فرما دیا کہ فرض کی تکبیر ہونےکے بعد سوائے اس فرض کے اور کوئی نماز نہیں اور خاص فجر کی جماعت کے شروع ہونے پر سنتیں پڑھتے ہوئے خود نیت توڑوا دی تو پکی بات اور سنت کا چلن یہی ہواکہ فرض کی تکبیر ہوجانے کے بعد سنتوں کی نیت نہ کرے، فجر ہو یا کوئی نماز ہو، اور  اگر پہلے سے سنتیں پڑھ رہا ہے تو جس وقت فرض کے واسطے تکبیر ہو سنتوں کی نیت توڑ دے اور جماعت میں شریک ہوجائے ، حدیث صحیح سے کسی مسئلہ کے ثابت ہونےکے بعد یہ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہ کہ اس بارے میں علماء کیا کہتے ہیں، جب کہ بڑے برے مجتہدین یوں کہہ گئے کہ حدیث کے مقابلے میں ہمارے قول کو چھوڑ دینا ، پھر دوسرے علماء کس شمار میں ہیں، ہاں کوئی شخص مسجد سے علیحدہ کسی مکان میں سنتیں پڑھتا ہے اور مسجد میں فرض کی جماعت شروع ہوگئی ہے تو یہ دوسری بات ہے، اس پرکچھ گرفت نہیں ہے۔

اب باقی رہا آپ صاحبوں کا یہ فرمانا کہ ان سب صورتوں میں ہم لوگ زمرہ عاملین سنت میں سے ہیں یانہیں، سو حضرت نام کے لیے تو مسلمانوں کے جتنے فرقے ہیں حتی کہ روافض اور خوارج بھی عاملین سنت کے زمرہ میں ہیں، کیونکہ  وٰی زبانی ہر فرقہ کا یہی ہے کہ ہمارا مذہب  قرآن و حدیث سےنکلا ہے،مگر حقیقت اور اصلیت کی طرف دھیان کرو ، تو عامل بالسنت وہی ہوسکتا ہے جس نےکسی خاص مذہب یاخاص مجتہد کی تقلید کو لازم و واجب نہیں کرلیا محض قرآن و حدیث پراپنے عمل کا مدار رکھتا ہے جو مسئلہ تحقیقات کےذریعوں میں سے کسی ذریعہ سے تحقیق ہوگیا، اسی کو عمل میں لایا ، خواہ کسی مجتہد نے اس کو لیا ہویا نہ لیا ہو اور جن حضرات نے کسی کی تقلید کو لازم اور واجب مان لیا ہے ، انہوں نے تو گویا یہ عہد کرلیا ہے کہ جس حدیث کو خاص فلاں مجتہد نے قبول کیا ہوگا ہم بھی قبول کریں گے اگر اس نے قبول نہ کیا ہوگا ہم بھی قبول نہ کریں گے، چنانچہ کوئی شخص مقلد اسی وقت کہلاتا  ہے جب تک کہ وہ اپنے مذہب کے خلاف حدیث پرعمل نہیں کرتا۔ جہاں خلاف مذہب حدیث پر عمل کیا ، لامذہب کہلایا، اور یہ بات خوب عیان ہے کہ تمام مذاہب مشہورہ مسلمانان میں سے اس امر سے خالی کوئی مذہب بھی نہیں کہ  تھوڑی بہت حدیثیں اس سےباہر نہ رہ گئی ہوں پس کسی مذہب معین کی تقلید واجب جاننےکو بعض حدیث کا انکار یاترک لازم ہوا، پھر جب ترک حدیث میں مذہب کی حفاظت ٹھہری تو عاملین سنت کے زمرہ میں ہوتا کہاں، ان کوتو ایک سخت وعید کا  سامنا ہوگیا،یعنی فرمایا ہے نبی ﷺ نے کہ تارک سنت پرمیری بھی لعنت ہے اور اللہ تعالیٰ کی بھی لعنت ہے۔ دیکھو مشکوٰۃ باب الایمان بالقدر صفحہ 16، الہم احفظنا ، الہم احفظنا آمین۔

یہاں پر اگر کسی کو یہ خدشہ گزرے کہ جب مجتہدوں نے بعض بعض حدیث کو چھوڑ دیا تو اس وعید ترک سنت میں وہ بھی شامل ہوئے تو جواب اس کا یہ ہے کہ استغفر اللہ استغفراللہ مجتہدین رحمۃ اللہ علیہم کسی حدیث کو جان بوجھ کر کیوں چھوڑنے لگے تھے، بلکہ یوں بات ہے کہ ان کے زمانوں میں چونکہ لکھنے پڑھنے کا چرچا کم تھا تو سب حدیثیں کتابوں میں جمع نہیں ہوچکی تھیں ہزاروں حدیثوں کامدار راویں کی یادداشت پر تھا اور راوی ملکوں اور شہروں میں متفرق تھے تو ایسی صورت میں سب حدیثوں کا ہر ایک  مجتہد کو م جانا ممکن نہیں تھا، اس لیے جو حدیث ان کونہیں ملی اور اگرملی تو ایسی سند سے نہ ملی جس پراطمینان ہوتا،وہ حدیث ان کے مذہب سے باہر رہ گئی ، حضرات مجتہدین رحمہ اللہ کو بعض حدیث کا نہ ملنا کیا بعید ہے جبکہ بڑے بڑے  اجلہ صحابی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کو بعض بعض حدیث کا نہ ملنا کتابوں میں مذکور ہے اور نہیں تو ازالۃ الخفا ہی کی سیر کرلیں کہ شاہ ولی اللہ نے ایک فہرست لکھی ہے کہ فلاں فلاں حدیث فلاں فلاں صحابہؓ کو نہ ملی تھی ،پس مجتہدین رحمہم اللہ اس بارے میں معاف اور معذور ہیں ، بایں ہمہ بطور مزیداحتیاط ان سب نے یہ وصیتیں کی ہیں کہ جب کوئی حدیث صحیح ہمارے قول کے خلاف پاؤ تو اس حد یث کو لے لینا اور ہمارے قول کو چھوڑ دینا اور پچھلے زمانوں میں لکھنے پڑھنے کا رواج زیادہ ہوتا گیا ۔ یہاںتک کہ تمام حدیثیں ضبط تحریرمیں آگئیں اور ان کی سندوں کی بھی کامل طور پرجانچ پڑتال ہوکر سب باتیں کتابوں میں درج ہوگئیں، جس سے ہر ایک شخص کو سب حدیثوں کا پڑھنا، سننا اور حال معلوم کرنا آسان ہوگیا لہٰذا پچھلے لوگ کسی حدیث کے چھوڑنے میں کسی عذر و حیلہ سے معاف و معذور نہیں ہوسکتے۔ حررہ حمیداللہ عفی عنہ 20 ذی الحجہ 1316ھ                                (سید محمد نذیر حسین)



[1]   رسول اللہﷺ جب نماز شروع کرتے تھے تو اپنے ہاتھوں کو کندھے کے برابر تک اٹھاتے تھے اور جب رکوع جانے کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سراٹھاتے تھے تو بھی کندھوں تک ہاتھ اٹھاتے۔

[2]   مجھے  کیا ہےکہ تم کو ہاتھ اٹھاتے دیکھتا ہوں۔ الحدیث


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ