سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(125) عمرو کہتا ہے کہ آیت الیس اللہ باحکم الحاکمین

  • 5632
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1963

سوال

(125) عمرو کہتا ہے کہ آیت الیس اللہ باحکم الحاکمین
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عمرو کہتا ہے کہ آیت الیس[1] اللہ  باحکم الحاکمین اور سبح[2] اسم ربک الاعلی اور فبای[3] حدیث بعد ہ یؤمنون وغیرہ  آیات کا جواب جس طرح سے قاری کو دینا چاہیے ، اسی طرح سامع کو بھی دینا چاہیے اور زید کہتا ہے کہ ان آیات کا جواب صرف قاری کو دینا چاہیے ،سامع کو نہیں دینا چاہیے پس ان دونوں میں سے کس کا قول حق و صواب ہے۔ بینوا توجروا



[1]   کیا اللہ  تعالیٰ سب حاکموں کا حاکم نہیں ہے۔

[2]   اپنے رب بلند کی تسبیح بیان کر۔

[3]   پھر اس کے  بعد کون سی بات پر ایمان لائیں گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئول عنہا میں عمرو کا قول اقرب الی الصواب ہے یعنی آیات مذکورہ کا جواب دینا جس طرح سے قاری کو دینا چاہیے اس طرح سے سامع کو بھی چاہیے اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کا بوقت قرأت ان آیتوں کا جواب دینا ثابت ہے اور آپ  کا کل قول و فعل امت کے لیے ہر وقت دستور العمل ہے ۔ تاوقتے کہ اس کی تخصیص کسی وقت خاص یا شخص خاص یا حالت خاص کے ساتھ ثابت نہ ہو، مثلاً رفع الیدین اور وضع الدین علی الصدر اور رفع سبابہ فی التشہد اور جلسہ استراحت اور تورک اور قبل افتتاح قراء ت کے  اللہ اکبر[1] کبیر والحمدللہ کثیرا و سبحان اللہ بکرۃ و اصیلا یا انی وجہت وجھی للذی فطر السموات والارض الخ یا اللھم باعدبینی و بین خطایا ی کما باعدت بین المشرق و المغرب الخ۔ پڑھنا یا رکوع میں سبوح [2]قدوس رب الملائکہ والروح اور سجدہ میں لک[3] سجد وجھی و عظامی و مخی پڑھنا وغیر ذلک یہ ایسے افعال ہیں جن کی مسنونیت میں کسی طرح کا شک نہیں ہوسکتا ہے اور امت محمدیہ میں سے ہر شخص کے لیے  یہ افعال مسنون ہیں،  خواہ وہ شخص امام ہو یا مقتدی ، خواہ منفرد ہو، حالانکہ یہ کہیں ثابت نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے مقتدیوں کو ان امور کی تعلیم فرمائی ہے۔ یا عام طرح پرفرمایا ہے کہ جو شخض جب نماز پڑھے تو ایسا کرے پھر بھی یہ احکام ہر شخص کے لیے اسی وجہ سے عام رہے کہ قول و فعل پیغمبر ﷺ تمام افراد امت کے  لیے دستور العمل ہوتا ہے جب تک حدیث مرفوع ہی سے   تخصیص ثابت نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ لقد[4] کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ الایۃ پس بنا بر تقریر ہذا ان آیات کا جواب دینا ہر شخص کو چاہیے  عام ازیں کہ قاری ہو یا سامع نماز میں ہو یا غیر نماز میں، امام ہو یا مقتدی یا منفرد۔

’’آنحضرت ﷺ جب سبح اسم ربک الاعلیٰ پڑھتے تھے تو سبحان ربی الاعلیٰ کہتے تھے۔ ایک آدمی اپنے مکان کی چھت پرنماز پڑھ رہا تھا ، جب اس نے الیس ذالک بقادر علی  ان یحیی الموتیٰ پڑھا تو کہا سبحانک فبیٰ،لوگوں نے اس بارے میں اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کو سنا ہے،بیہقی میں روایت ہے کہ آپ صبح کی نماز میں سبح اسم ربک الاعلیٰ پڑھا، تو فرمایا سبحان ربی الاعلیٰ، عوف بن  مالک  کہتے ہیں  کہ ایک رات آپ نے نماز میں سور بقرہ شروع کی۔ جب آپ کوئی رحمت کی آیت پڑھتے تو ٹھہر جاتے اور خدا سے رحمت کا سوال کرتے اورجب عذاب کی آیت پڑھتے تو اس سے پناہ مانگتے ، پھر آپ نے قیام کے برابر رکوع کیا اور اس میں سبحان ذی الجبروت والملکوت والکبریا والعظمۃ پڑھتے رہے،پھر سجدہ بھی قیام  کے برابر کیا اور اس میں بھی رکو ع والی دعا پڑھتے رہے،پھر آپ کھڑے ہوئے ، تو سورت آل عمران اور ایک اور سورت پڑھی۔ جابر کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے صحابہ پر سورہ الرحمٰن پڑھی، وہ خاموشی سے سنتے رہے، آپ نے فرمایا: میں نے جنوں کی رات میں یہی سورۃ جنوں پر پڑھی تھی۔ وہ تم سے جواب دینے میں اچھے رہے، جب بھی میں پڑھتا ، فبای آلاء ربکم تکذبان تو وہ جواب دیتے ،ا ے ہمارے رب ہم تیری کسی نعمت کا انکار نہیں کرتے، تیرے ہی لیےسب تعریفیں ہیں۔‘‘

اس  حدیث ترمذی سے یہ امر بھی معلوم ہوا کہ اس قسم کی آیتوں کا جواب قاری یا مصلی کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ خود اس کلام پاک کے معنی اور موقع کے  لحاظ سے ہے، جب ہی تو آپ نے صحابہ  کرام کے سکوت پر اعتراض فرمایا اور جنات کے جواب دینے کومدحیہ طور پر ذکر فرمایا حالانکہ آپ نے اس واقعہ سے قبل صحابہ کرام کو اس جواب کی تعلیم نہیں فرمائی تھی، پس معلوم ہوا کہ خود رسول اللہ ﷺ نے بھی جن جن آیتوں کاجواب دیا ہے وہ اس خصوصیت سے نہیں کہ آپ امام تھے یاقاری تھے،بلکہ ہ ان آیتوں کا معنی اور موقع ہی ایسا ہے کہ جب وہ آیت پڑھی جائے تو پڑھنے والا اور سننے والا ہر شخص اس کامناسب جواب جو احادیث سے ثابت ہو دیوے۔

’’جب اللہ تعالیٰ کا یہ قول الیس ذک بقادر علی ان یحیی الموتیٰ پڑھے تو کہے بلی اور جب الیس اللہ باحکم الحاکمین پڑھے تو بلیٰ کہے، کیونکہ  ان میں سوال کیا گیا ہے، جس کا جوا ب دینا چاہیے اورخطاب کا حق ہے کہ مخاطب کلام کا جواب دے، اگر نہ دے گا تو سامع بےخبروں کی طرح ہوگا یا جیسےکوئی جانور ، جوآواز تو سنتا ہے لیکن مطلب نہیں سمجھتا، یا کسی اندھے، گونگے، بہرے کی طرح ، جسے کچھ سمجھ نہ آئے ، یہ حالت تو بہت بُری حالت ہے، پھر مستحب ہے کہ رحمت کی آیت سے گزرے ، تو رحمت کا سوال کرے ، عذاب کی آیت سے گزرے تو پناہ مانگے ، جنت کا تذکرہ ہو تو اس کا سوال کرے، دوزخ کا ذکر ہو، تو پناہ مانگے،اگر تنزیہ کی آیت ہو، تو اللہ کی پاکیزگی بیان کرے ، تعریف کی آیت ہو ، تو اللہ کی تعریف کرے، علی ہذا القیاس۔                                                                           

’’جب تسبیح کی آیت سے گذرے تو تسبیح بیان کرے، جب سوال کا ذکر ہو تو سوال کرے اور جب تعوذ سے گزرے تو پناہ مانگے، نماز میں قاری کے لیے یہ سب امور مستحب ہیں اور ہم اس امام ، مقتدی، منفرد سب کے لیےمستحب جانتے ہیں۔‘‘                       (سید محمد نذیر حسین)



[1]   اللہ بہت بڑا ہے، اللہ کی بہت تعریف ہے ، صبح و شام خدا کی پاکیزگی ہے، میں نے اپنا رخ اس خدا کی طرف کیا، جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا ۔ اے اللہ میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنا فاصلہ کردے جتنا مشرق و مغرب  میں ہے۔

[2]   فرشتوں اور روح کا رب پاک ہے۔

[3]   اے اللہ تیرے سامنے میرا چہرہ ، میری ہڈیاں ،میرا گودا جھک گیا۔

[4]   تمہارے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے