سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(119) مسجد میں نماز پڑھنے اور مکان پر نماز پڑھنا

  • 5626
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2118

سوال

(119) مسجد میں نماز پڑھنے اور مکان پر نماز پڑھنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسجد میں نماز جماعت ہوگئی اس کے بعد مسجد میں نماز پڑھنے اور مکان پر نماز پڑھنے میں کوئی فرق ہے یادونوںصورتیں برابر ہیں اور در صورت اولکون سیافضل ہے۔بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسی صورت میں گھر  پر اور مسجد میںدونوں جگہ نماز پڑھنا مساوی ہے۔ اور ظاہر الروایت میں فضیلت کسی جگہ کو نہیں۔ فی[1] الخانیۃ رجل فاتتہ الجماعۃ فی مسجد حیۃ فان ذھب الی مسجد اخروصلی فیہ بجماعۃ فھو حسن وان صلی فی مسجد حیۃ وحدۃ فہو حسن واندخل منزلہ وصلی فیہ باھلہ فہو حسن واللہ اعلم بالصواب و عندہ ام الکتاب۔ محمد اعظم غفرلہ اللہ عما اجرم۔

مخفی نہ رہے کہ صورت مسئولہ میں تامل سے ثابت ہوتا ہے کہ چار صورتیں پیدا ہوتی ہیں، ایک مسجد و مکان میں دونوں جگہ تنہا پڑھے، دوسری دونوں جگہ جماعت سے پڑھے، تیسری مسجد میں جماعت سے اور گھر میں تنہا، چوتھی برعکس کے یعنی مسجد میں تنہا اور گھر میں جماعت سے ، تو خانیہ کی عبارت سے اگر ثابت ہوتا ہے تو اس صورت اخیرکا حکم ثابت ہوتا ہے اور پہلی تین صورتیں جو باقی رہیں، ان کا حکم ظاہر نہیں ہوا اور اصلی مسئول صورت اوّل ہی ہے تو واضح رہے کہ ان تینوں صورتوں میں مسجد  ہی افضل ہے جیسا کہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم، حررہ ابومحمد یحییٰ شاہ جہانپوری۔

در صورت تنہا پڑھنے کے ہر دو جگہ مسجد میں پڑھنا افضل ہے، فضیلت مسجد میں جو احادیث مطلق وارد ہیں، قطع نظر جماعت سے وہ دال ہیں اور اقوال فقہاء سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی مسجد میں داخل ہوجائے تو اس کو وہاں سے دوسری مسجد میں جماعت کے واسطے بھی جانا نہ چاہیے۔ اگرچہ مسجد اوّل میں جماعت ہوچکی ہو۔ قال[2] صاحب فتح القدیر واذا کان مسجد ان یختارا قد مہماوان استو یا فالاقرب وان صلوا فی الاقرب و سمع اقامۃ غیرہ فان کاندخل فیہ لا یخرج ولا یذھب الیہ انتہی۔ پس جب مسجد میں آن کردوسری مسجد میں جماعت اولےٰ کے لیے اجازت نہیں دیتے تو گھر کو کیا مناسبت ہے ، بقیہ صورتیں چونکہ سائل کومطلوب نہیں۔ لہٰذا جو اب نہیں لکھا اور سائل کی زبانی معلوم ہوا کہ قصہ مسجد اقرب کا ہے۔ فقط عبدالکریم پنجابی                                  (محمد یعقوب)

مسجد اور گھر  ادائےصلوٰۃ کے واسطے مساوی خیال کرنا مجیب صاحب ہی کا کام ہے فقہائے کرام نے کہیں نہیں لکھا ہے کہ مسجد اور گھر صلوٰۃ کے واسطے مساوی ہیں اور جو روایت مجیب نے نقل کی ہے اس کا مطلب انہوں نے نہیںسمجھا، کما لایخفی، معلوم کرنا چاہیے کہ گھر اور مسجد ادائےصلوۃ مفروضہ کے حق میں بلکہ اور اذکار کے حق میں بھی مساوی نہیں، بلکہ مسجد میں نماز پڑھنا افضل ہے باعتبار گھر کے ۔ عن [3]ابوہریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہوسلم من غدا الی المسجد اوراح اعداللہ لہ نزلہ فی الجنۃ کلما غدا اوراح متفق علیہ   حافظ ابن حجر اس حدیث کے تحت میں لکھتے ہیں : وظاہرالحدیث حصول الفضل لمن اتی المسجد مطلقا ولکن المقصود منہ اختصاصہ بمن یاتیہ للعبادۃ والصلوۃ واشہا انتہی۔ حررہ سید محمد عبدالحفیظ عفا اللہ عنہ            (سید محمدنذیر حسین)



[1]   محلہ  کی مسجد میں اگر کسی آدمی کی جماعت فوت ہوجائے تو پھر اگر وہ کسی اور محلہ کیمسجد میں جاکر جماعت سے نماز پڑھ لے تو بھی ٹھیک ہے اور اگر محلہ کی مسجد میں اکیلا نماز ادا کرے تو بھی ٹھیک ہے اور اگر اپنے گھر جاکر بالبچوں سمیت نماز پڑھ لے تو بھی  ٹھیک ہے۔

[2]   اگر دو مسجدیں ہوں تو قدیمی مسجد کو ترجیح دے اگر دونوں ایک زمانہ کی ہوں تو قریبی کو ترجیح دے، اگر قریبی میں جماعت ہوچکی ہو اور دوسری میں تکبیر کہنے کی آواز سن لے تو اگر قریبی مسجد کے اندر داخل ہوچکا ہو تو پھر وہیں نماز پڑھے اور اگر داخل نہ ہو ا ہو، تو دوسری میں چلا جائے۔

[3]   آنحضرتﷺ نے فرمایا : جو آدمی پہلے پہر یا پچھلے پہر مسجد کی طرف جائے تو جب بھی وہ مسجد کی طرف جاتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں مہمانی تیار کرتے ہیں۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے