فرضی یا نفلی نماز میں امام بعد تین آیت کے یا کم میں تین آیت سے بھول جائے تو مقتدی لقمہ دے سکتا ہے یا نہیں اور مقتدی و امام دونوں کی نماز درست ہوگی یانہیں؟
دیگر حافظ بینا کی موجودگی میں حافظ نابیناکے پیچھے نماز درست ہے یانہیں؟
دیگر نماز جنازہ کے ادا سے وضو باقی رہتا ہے یا ٹوٹ جاتا ہے؟
دیگرسبحان اللہ تنتیس بار ، اللہ اکبر چونتیس بار پڑھے ، اس میں شک ہے کہ الحمدللہ تا آخر پڑھے یا صر ف الحمدللہ پڑھے؟
جب امام کسی نماز میں بھول جائے فرض ہو یا نفل اور تین آیت کے بعد بھولے یا تین آیت سے کم میں بھولے ہرنماز میں اور ہرصورت میں مقتدی کو لقمہ دینا درست ہے اور مقتدی اور امام دونوں کی نماز درست ہوگی لقمہ دینے سے نہ مقتدی کی نماز میں کچھ خلل آتا ہے اورنہ امام کی نماز میں بلکہ امام جب بھول جائے یا اس کو متشابہ لگے تو مقتدی کو لقمہ دینے کا حکم ہے ، سنن ابی داؤد میں ہے ۔ عن المسور بن یزید المالکی ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقرأ فی الصلوٰۃ فترک شیئا لم یقرأہ فقال لہ رجال یا رسول اللہ ترکت ایۃ کذا و کذا فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھلا ذکر تنیہا قال کنت اراھا نسخت وفی روایۃ ابن حبان فقال ظننت انھا نسخت قال فانھا لم تنسخ۔ یعنی مسور بن یزید سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں قرأت پڑھ رہے تھے پس کچھ چھوڑ دیا اور اس کو پڑھا نہیں تو ایک مرد نے کہا یارسول اللہﷺ آپ نے فلاں فلاں آیت چھوڑ دی، تب آپ نے فرمایا کہ تو نے مجھے کیوں یادنہیں دلایا۔ اس مرد نے کہا کہ میں نے گمان کیا کہ وہ آیت (جس کو آپ نے چھوڑ دیا اور پڑھا نہیں) منسوخ ہوگئی ہے ، آپ نے فرمایا: منسوخ نہیں ہوئی ہے و نیز سنن ابی داؤد میں ہے، عن عبداللہ بن عمر ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلوٰۃ فقرأ فلیس علیہ فاما انصرف قال لابی اصلیت معناقال نعم قال فمامنعک ۔یعنی عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک نماز پڑھی، پس آپ نےقرأت کی، تو آپ پر قرأت ملتبس ہوئی تو پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے ابی بن کعب سے کہا کہ تم نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ہے ، انہوں نے کہا ہاں، آپ نے فرمایا کس چیز نے لقمہ دینے سے تم کو روکا ۔
اور بعض فقہائے حنفیہ نے جو یہ لکھا ہے کہ ’’جب امام بقدر یا یجوزیہ الصلوٰۃ قرأت پڑھ لے یا کسی دوسری آیت کی طرف منتقل ہوجائے پھر مقتدی لقمہ دے تو مقتدی کی نماز فاسد ہوجائے گی اوراگر امام لقمہ لیوے تو اس کی بھی نماز فاسد ہوجائے گی ۔ سو یہ بالکل بے دلیل بات ہے ، اسی وجہ سے حنفی مذہب میں ان بعض فقہاء کے اس قول پر فتوے نہیں ہے بلکہ فتوے اس پر ہے کہ ان دونوں صورتوں میں بھی لقمہ دینے سے نہ مقتدی کی نماز فاسد ہوتی ہے اور نہ امام کی۔ قال فی شرح[1] الوقایۃ قال بعض المشائخ اذاقرأ امام مقدار مایجوز بہ الصلوٰۃ او انتقل الی آیۃ اخری ففتح تفسد صلوٰۃ الفاتح وان اخذالامام منہ تفسد صلوٰۃ الامام ایضا و بعضہم قالوا لا تفسد فی شئ من ذلک و سمعت ان الفتوی علی ذلک ۔ انتہی واللہ اعلم۔
(2) نا بینا امام کے پیچھے نماز پڑھنے میں کسی قسم کی کراہت نہین ہے بلا کراہت جائز و درست ہے اور جو لوگ نابیناکے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ بتاتے ہیں ان کا قول بالکل بےدلیل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ابن اُم مکتوم کو جو اندھے تھے، مدینہ پر دوبار خلیفہ بنایا جو لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ عن انس[2] ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم استخلف ابن اُم مکتوم علی المدینہ مرتین یصلی بھم وھو اغسی۔رواہ احمد و ابوداؤد، پس حافظ بینا کی موجودگی میں حافظ نابینا کی امامت درست ہے اگر دونوں قرأت میں برابر ہیں اور ان میں کوئی اعلم بالسنۃ نہیں ہے اور اگر دونوں قرأت میں برابر ہیں اور ان میں کوئی اعلم بالسنۃ ہے تو اسی کو امام بنانا چاہیے وہ بینا ہو یا نابینا۔ واللہ اعلم۔
(3) نماز جنازے کے ادا سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے بلکہ علی حالہ باقی رہتا ہے۔
(4) صرف الحمدللہ پڑھنا چاہیے ۔ آخر تک نہیں۔واللہ اعلم بالصواب۔ (سید محمد نذیرحسین)
[1] جب امام اتنی قرأت کرلے کہ جس سے نماز جائز ہوسکتی ہو یا کسی دوسری آیت کی طرف منتقل ہوجائے پھر کوئی لقمہ دے تو لقمہ دینے والے والے کی نماز فاسد ہوجائے گی اور اگر امام لقمہ قبول کرلے تو اس کی نماز بھی فاسد ہوجائے گی۔ بعض کہتے ہیں کہ کسی کی بھی نماز فاسد نہیں ہوتی اور فتویٰاسی پر ہے۔
[2] آنحضرت ﷺ نے عبداللہ بن اُم مکتوم کو دو دفعہ مدینہ پرحاکم بنایا وہ نماز پڑھاتے تھے حالانکہ وہ نابینا تھے۔