سورہ فاتحہ مقتدی بموجب حدیث بخاری شریف پڑھے یا نہ پڑھے، بعضے عالم اس کو دلیل آیت واذ اقرئ القرآن الخ سے مکروہ تحریمی کہتے ہیں اور سورت فاتحہ نماز میں فرض نہیں بتاتے اور کہتے ہیں کہ اگر فاتحہ کا پڑھنافرض ہوتا تو نص جلی سے ثابت ہوتا، جس قدر فرض ہیں، نص جلی سے ثابت ہیں۔ حدیث شریف سے سنت ثابت ہوتی ہے نہ کہ فرض۔
بموجب حدیث بخاری شریف مقتدی پر سورت فاتحہ پڑھنا ضروری ہے اور جو عالم آیت واذ اقرئ القرآن کی دلیل سے مکروہ تحریمی کہتے ہیں، وہ بڑی غلطی کرتے ہیں،کیونکہ نور الانوار میں لکھا ہے کہ آیت واذ اقرئ القرآن آیت فاقرؤا ما تیسر ما القرآن کے معارض ہے اورمعارضہ کی وجہ سے ساقط عن الاحتجاج ہے یعنی دلیل میں پیش کرنے کے قابل نہیں ہے اور اس سے امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنے کی ممانعت ثابت نہیں ہوسکتی۔ اس کےعلاوہ حضرت عبادہؓ سے یہ حدیث بخاری شریف میں مروی ہے کہ لاصلوۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب یعنی جو سورت فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہے۔ اور یہ حدیث ابوداؤد اور ترمذی وغیرہمیں بھی موجود ہے۔ عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی صلوٰۃ الفجر فقرأ فثقلت علیہ القراءۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرؤن خلف امامکم قلنا نعم یا رسول اللہ قال لا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لاصلوۃ لمن لم یقرأ بہا۔ یعنی عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ ہم لوگ نماز فجر میں رسو ل اللہ ﷺ کے پیچھے تھے پس آپ نے قرأت پڑھی پس آپ پر قرأت بھاری ہوئی، جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا کہ شایدتم لوگ اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو، ہم لوگوں نےکہا ہاں آپ نے فرمایا، مت پڑھو مگر سورت فاتحہ کیونکہ جس نے سورت فاتحہ نہیں پڑھی ، اس کی نماز نہیں، یہ حدیث صحیح ہے امام خطابی اور حاکم اور بیہقی اور ترمذی اور حافظ ابن حجر وغیرہ نے اس حدیث کے صحیح ہونے کی تصریح کی ہے۔
ان دونوں حدیثوں سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ مقتدی کو سورت فاتحہ پڑھنا فرض ہے ، بدوں سورت فاتحہ کے اس کی نماز نہیں ہوگی، پس ان دونوں حدیثوں سے آیت واذا قرئ القرآن مخصوص ہے اور حنفیہ کو بھی اس سے انکارنہیں ہوسکتا کیونکہ ان کے نزدیک یہ آیت عام مخصوص منہ البعض ہے۔ دیکھو تفسیراحمدی مصنفہ ملاجیون پس آیت مذکور کی اخبار احاد سے ان کے نزدیک بھی تخصیص ہوسکتی ہے۔
اور اس عالم کا یہ کہنا کہ جس قدر فرض ہیں وہ نص جلی سے ثابت ہوتے ہیں، صحیح نہیں ،دیکھو مثلاً نماز ظہر اور عصر کاچار چار رکعت ہونا بالاتفاق فرض ہے ، حالانکہ نص جلی یعنی قرآن شریف میں ظہر اور عصر کی چار چار رکعت کافرض ہونا کہیں مذکور نہیں ہے بلکہ ظہر اور عصر وغیرہ فرائض پنجگانہ کی تعداد رکعت ہی کا ذکر نہیں ہے اگر اس عالم کا یہ قول صحیح ہو تو لازم آتا ہے، کہ ظہر اور عصر کاچار چار رکعت ہونا فرض نہ ہو بلکہ سخت ہو،حالانکہ کوئی اس کا قائل نہیں ہے، پس اس عالم کا یہ قول صحیح نہیں ہے ، بلکہ جیسےنص جلی یعنی قرآن شریف سے فرضیت ثابت ہوتی ہے ، حدیث شریف سے بھی فرضیت ثابت ہوتی ہے۔ حررہ علی محمد فیروز پوری عفی عنہ (سیدمحمد نذیر حسین)