کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسجد شہید کردی ہو انگریزوں نے اور عملہ اس کامتولی مسکین کو دے دیا ، اب متولی مسکین اس عملہ کو فروخت کرکے اپنے نان و پارچہ میں خرچ کرے یانہیں اورمتولی اس قدر محتاج ہے کہ نوبت فاقہ کی گذرتی ہے اور پارچہ سے بہت تنگ ہے اورتمام مسجدیں اس جگہ پختہ ہیں ، کوئی ایسی مسجد نہیں کہ اس پر خرچ کیا جائے وہ عملہ اور مبلغ تیئس روپیہ اس عملہ کے وصول ہوئے ۔ بینوا توجروا۔
در صورت مرقومہ واضح ہو کہ مبلغ تیئیس روپیہ جومتولی مذکور کو بابت عملہ مسجد وصول ہوئے ۔ اس کو اپنے صرف میں لانا اس کا شرعاً جائز نہیں ہےبلکہ اس کو چاہیےکہ مبالغ مذکورہ کو اس جگہ کی کسی مسجد میں لگا دے اورمرمت کرادے اور اگر وہاں حاجت نہ ہو مرمت کی، تو اور جگہ کی کسی مسجد کی مرمت وغیرہ میں صرف کردے اور اپنے کام میں وہ روپیہ نہ لائے اور چونکہ حاکم شرع کاموجود نہیں تو متولی مذکو راس روپیہ کو امانت رکھے، جب تک کہ وہ مسجد میں صرف نہ کرے۔ ہدایہ کی کتاب الوقف میں ہے: وما[1] انھدم من بناء الوقف والتہ صرفہ الحاکم فی عمارۃ الوقف ان احتاج الیہ وان استغنی عنہ امسکہ حتی یحتاج الی عمارتہ فیصرفہ فیھا لانہ لابد للعمارۃ لیبقی علی التابید فیحصل مقصود الواقف الخ ۔ حررہ السیدشریف حسین عفی عنہ۔ (سیدمحمد نذیرحسین)
[1] اگر کوئی وقف کی عمارت گرجائے تو اس کے سامان کو حاکم وقت وقف کی عمارت میں خرچ کرے اور اس کی ضرورت نہ ہوتو اسے اپنے پاس امانت رکھے، جب عمارت کی ضرورت پڑے تو پھر اس کوخرچ کرے ، کیونکہ عمارت کا ہمیشہ تک رہنا ضروری ہے تاکہ واقف کا مقصود حاصل ہو۔