سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(96) وہ ہندو تھا، کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ مسجد تیارکرواؤں

  • 5603
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-09
  • مشاہدات : 728

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماوے دین صورت مسئولہ میں  کہ ایک رنڈی قوم مسلمان کی اپنے دارندہ سے (کہ وہ ہندو تھا) کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ ایک مسجد تیارکرواؤں، اگر تیری مہربانی سے ایک مسجد تیار ہوجائے تو تیری مجھ پر بڑی مہربانی ہوگی۔ اس ہندو نے بپاس خاطر رنڈی مذکور ایک مسجد تیارکرواوی اور  اس کے حوالہکردی، اس رنڈی نے اس محلہ کےلوگوں سے کہا کہ یہ وقف ہے تم اس میں  نماز پڑھا کرو مگر مسلمانوں نے بسبب فرمانے بعض علماء کے (کہ مال حرام سے جو جگہ تیار ہو، وہ مسجدنہیں ہوسکتی ہے اور کافر کا مسجد بنوانا شرعاً غیرمقبول ہے بنابرآن اس مسجد میں  نماز مع الکراہت جائز ہے اور ثواب مسجد کی نماز کا حاصل نہیں ہوتا ہے) اس مسجد میں  نماز پڑھنے کو مکروہ تصور کرتے تھے، مگر جویان تھے کہ کوئی صورت  جواز صلوۃ بلاکراہت کی ظاہر ہو کہ کسی فاضل نے فرمایا کہ جب وہ مسجد ہی نہیں تو اس کو خرید لو اور وقف کرکے نماز پڑھو،پس اہل محلہ نے  اس کوخرید لیا اور فرش ، دیوار وغیرہ چھیل چھال کر از سر نومرمت کروائی اور ان کازعم یہ تھا کہ اس عمل سےمسجد پاک ہوجائے گی اور نماز مشروع ہوگی ، آیا اب اس مسجد میں  نماز پڑھناشرعاً جائز ہے یا نہ، اورجائز ہے تو مسجد کا حکم اس پر درست ہوسکتا ہے یا نہ۔ بینواتوجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واللہ الموفق لصحیح الجواب جومسجد مال حرام سے تیار ہو، وہ ملحق بمسجد ضرار ہے اور اس میں  نماز پڑھنا مکروہ ہے اور جس مسجد کو کافر بنا دے وہ مسجد نہیں ہوسکتی یہی بہت صحیح  و درست ہے۔ ’’ہر وہ مسجد جو ریا اور سنانے یا خدا کی رضامندی کے بغیر کسی اور غرض سے یا مال حرام سے تیارکی جائے وہ مسجد ضرار کے حکم میں  ہے۔‘‘ ،’’ مشرکوں کاکوئی حق نہیں ہے کہ وہ کافر رہتے ہوئے اللہ کی مسجدوں کو تعمیر کریں‘‘ یعنی یہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ وہ جمع بین المتنافیین کریں کہ ایک طرف تو خالص خدا کی عبادت کے لیےمسجد بنائیں اوردوسری طرف خدا کے ساتھ شرک کریں اور غیراللہ کی عبادت کریں۔

مگر  صورت مسئولۃ الصدر اس حکم سے خارج ہے کیونکہ وہ مسجد نہ مال حرام  سے اور نہ کافر کی جانب سے تیار ہوئی ہے اس لیےکہ وہ معمر کافر اسمسجد کی تعمیر میں  وکیل محض ہے وہ اپنی جانب سے مسجد کی تعمیر کرواتا نہیں ہے بلکہ اس مزنیہ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے، پس معمر واقع میں  وہی عورت ہے اور وہ فی الواقع اہل تعمیر ہے اس کی تعمیر اور وقف کرنا شرعاً درست ہے ، کما لا یخفی اورمال مصروفہ بھی شرعاً حرام نہیں ہوسکتا، کیونکہ جو مال کہ معصیت کے ساتھ مشروط ہوتا ہے وہ حرام ہے اور جو مال کہ غیر مشروط بالمعصیت ہو ہرگز حرام نہیں ہوسکتا چنانچہ عالمگیری کی جلد خامس ، کتاب الکراہت صفحہ 132 مطبوعہ احمدی بلدہ شاہدرہ میں  مصرح ہے۔

’’امام محمد کہتے ہیں: کہ اگر نوحہ کرنے والی عورت یاطبلہ یا جا بجانے والے نے اپنی اجرت مقرر کرکے لوگوں سے مال لیا ہو تو اس کو مال مالکوں پرواپس کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ گناہ کی مزدوری ہے اور اس کا علاج صرف اس کو واپس کرنا ہے اگر مالک اس کو معلوم ہوں تو ان کو واپس کردے ورنہوہ مال صدقہ کردے اگرچہ اس صورت میں  ان کو اصل مال تو نہ ملے گا لیکن اس کاثواب ان کو پہنچ جائے گا۔‘‘

پس وہ مسجد ملحق بمسجد ضرار ہرگز نہیں ہوسکتی اور نمازیوں کوثواب بھی مثل اور مساجد کے حاصل ہوگا اگر وہ مزنیہ اپنے اس مال سے جومشروط بالمعصیت کرکےحاصل کیاتھا تعمیرکرواتی تو لاجرم وہ مسجد ملحق بمسجد ضرار ہوتی اور احکام اس کے  اس پر عائد اور وارد ہوتے۔ ھذا ما سخ لیفی ھذا المقام واللہ تعالیٰ اعلم بحقیقۃ المرام۔ حررہ الراجی عفوریہ الخلاق محمد المدعویاسحق رزقہ الرزاق حلاوۃ الایمان فی الافاق مہتم مدرسہ احمدیہ بلگام عفی عنہ۔ 2 جمادی الثانیۃ 1317ھ ۔ صحیح جواب المجیب ۔ حررہ محمد عبدالجیل عفی عنہ۔الجواب صحیح ۔                          (سید محمد نذیرحسین)


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ