کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک جمعدار فوج نے خاص اپنے روپیہ سے مسجد تیار کرائی آیا وہ مسجد شرعاً حکم مسجد کا رکھتی ہے یا نہ اور اس مسجد میں مصلیوں کے نماز پڑھنے سے اس کوثواب ملے گا یانہ۔ بینوا توجروا
اگر اس مسجد میں کوئی مانع شرعی نہ ہو تو بے شک وہ مسجدشرعاً مسجد کا حکم رکھتی ہے اور اس میں مصلیوں کے نماز پڑھنے سے اس کو ثواب ملے گا، موانعات شرعیہ یہ ہیں کہ مال حرام سے یا زمین مغصوبہ میں بنائی گئی ہو یا زمین مشترکہ میں بلا اجازت شریک ثانی بنائی گئی ہو یا بقصد فخر و مباہاۃ و ریا کے بنائی گئی ہو یا ضرر رسانی و ضد اور مخالفت مسجد ثانی کے بنائی گئی ہو تو ایسی مسجد شرعاً حکم مسجد کا نہیں رکھتی، تفسیر مدارک میں ہے کل[1] مسجد بنی مباھاۃ اور یاء اوسمعۃ او لعرض سوی ابتغاء وجہ اللہ او بمال غی رطیب فہو لا حق بمسجد الضرار اور تفسیر کشاف میں ہے عن[2] عطاء لما فتح اللہ الامصار علی ید عمر رضی الہ عنہ امرالمسلمین ان یبنوا المساجد ولا یتخذوا فی المدینۃ مسجدین یضار احدھما صاحبہ الخ تفسیر احمدی میں ہے ۔ فالعجب[3] من المشائخ المتعصبین فی زماننا یبنون فی کل ناحیۃ مسجد اطلبا للاسم والرسم و استیلاء لشانہم واقتداء بابائھم ولم یتاملوا ما فی ھذہ الایۃ والقصۃ من شناعتہ احوالہم و افعالہم۔ انتہی، پس اگر مسجد،مسجد کا حکم رکھتی ہے اور اس میں مصلیوں کے نماز پڑھنے سے اس کے بانی جمعدار مذکور کوثواب ملے گا ۔ واللہ اعلم بالصواب، حررہ عبدالحق ملتانی عفی عنہ (سید محمد نذیر حسین)
[1] اس کا ترجمہ پہلے گذر چکا ہے۔
[2] اس کاترجمہ بھی گزر چکا ہے۔
[3] ہمارے زمانے کے متعصب مشائخ سے تعجب ہے کہ وہ اپنے نام اور مشہوری اور برتری کے لیے آبائی رسم کے مطابق ہر گوشہ میں مسجد بنا لیتے ہیں ، کیا وہ اس آیت پر غور نہیں کرتے اور منافقین کے حالات و افعال سے واقف نہیں ہوتے۔