سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(160) حدیث قدسی اور حدیث نبوی کے درمیان فرق

  • 56
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 8756

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته حدیث قدسی اورحدیث نبوی کے درمیان کیا فرق ہے ،نیز حدیث قدسی کو قدسی کیوں کہا جاتا ہے۔؟ ازراہِ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

  حدیث قدسی وہ جس کی نسبت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف کی جائے، اس میں بیان شدہ مفہوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور الفاظ رسول اللہ ﷺکے ہوتے ہیں اورحدیث نبوی میں حدیث کی نسبت رسول کریمﷺ کی طرف ہوتی ہے۔ حدیث نبوی میں الفاظ و معانی رسول اللہﷺ کے اپنے ہوتے ہیں، البتہ حدیث نبوی بھی وحی الٰہی کے تابع ہوتی ہےاورحدیث قدسی کو قدسی اس کی عظمت ورفعت کی وجہ سے کہا جاتا ہےیعنی قدسی کی نسبت قدس کی طرف ہے،جو اس حدیث کے عظیم ہونے کی دلیل ہے۔

حدیث قدسی کی مثال

«عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال : قال النبي - صلى الله عليه وسلم - : يقول الله تعالى : ( أنا عند ظن عبدي بي ، وأنا معه إذا ذكرني ، فإن ذكرني في نفسه ذكرته في نفسي ، وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم ، وإن تقرب إلي بشبر تقربت إليه ذراعا ، وإن تقرب إلي ذراعا تقربت إليه باعا ، وإن أتاني يمشي أتيته هرولة »

(صحیح بخاری:7405) (صحیح مسلم:2675)

سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نےفرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوتا ہوں جو وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے اپنے نفس میں یاد کرے تو میں بھی اسے اپنے نفس میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ مجھے بھری محفل میں یاد کرے تو میں اسے اس سے بہتر محفل میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف ایک بالشت آئے تو میں اس کی جانب ایک گز نزدیک ہو جاتا ہوں۔ اور اگر وہ ایک گز مجھ سے قریب ہو تو میں دو گز اس سے نزدیک ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف چلتا ہوا آئے تو میں دوڑتا ہوا اس کے پاس آتا ہوں۔

حدیث نبویﷺ کی مثال:

«عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ( من رأى منكم منكرا فليغيره بيده ، فإن لم يستطع فبلسانه ، فإن لم يستطع فبقلبه ، وذلك أضعف الإيمان »(صحیح  مسلم :49)

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ آپ (ﷺ) فرما رہے تھے: ’’تم میں سے جوشخص منکر (ناقابل قبول کام ) دیکھے، اس پر لازم ہے کہ اسے اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے، اوراگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے (اسے برا سمجھے اور اس کے بدلنے کی مثبت تدبیر سوچے) اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔‘‘

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 2 کتاب الصلوۃ

محدث فتویٰ کمیٹی

تبصرے