کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسجد کے نیچے دکانیں اس کےمصارف کےلیے بنوانا کیسا ہے اور اس میں نماز کا کیا حکم ہے، کیونکہ مسجد کا کرچ بغیر آمد کے بعض جگہ چلنا دشوار ہے، اس مسئلہ کو مدلل کتب معتبرہ فقہ سے ارقام فرما دیں۔ بینوا توجروا
در صورت مرقومہ معلوم کرنا چاہیے کہ مسجد کے نیچے یا اس کے اوپر دکان بلا وقف اپنے منافع کے واسطے بنائی تو وہ مسجد حکم میں مسجد کے نہیں ہے، کیونکہ زیر و بالا اس کا خالص واسطے اللہ تعالیٰ کے نہ ہوا اور جووقف کیا دکان زیر و بالا کومصالح مسجد اور خرچ مرمت مسجد کے واسطے تو وہ مسجد حکم مسجد شرعی میں ہوگی کیونکہ اس میں سے حق تصرف و منافع عباد کا بالکل زائل ہوا اور وہ مسجد خالص واسطے اللہ تعالیٰ کے قرار پائی ،ایسا ہی کتب معتبرہ فقہ سے واضح ہوتا ہے۔
’’جس کسی نے ایسی جگہ کو مسجد بنا لیا جس کےنیچے کوئی تہ خانہ ہے یا اوپر کوئی مکان ہے اور وہ مسجد کی ملکیت نہ ہوں تو وہ مسجد ، مسجد نہیں ہے وہ اس کو بیچ سکتا ہے اور اگر مرجائے تو ورثہ میں چلی جائے گی ، ہاں اگرتہ خانہ یا مکان مسجد کے لیے وقف ہوجائے تو پھر وہ مسجد ٹھیک ہے کیونکہ اس میں کسی آدمی کا حق نہیں رہا۔‘‘ (سید محمد نذیر حسین)
ہر گاہ گروہ مسلمانان نے در باب تعمیر مسجد اور مصالح اس کےمثلاً پانچ آدمیوں کو متولی اپنی طرف سے مقرر کیا تو پانچوں کے مشورہ اور صلاح سے کارروائی مسجد کی ، کی جائے گی اور تفرد شخص واحد کا اس میں روا نہیں، پس ایسی صورت میں اگر کسی ایک شخص نے اپنی رائے سے بلا مشورہ و صلاح بقیہ چار شخصوں کے درباب تعمیر و مصالح مسجد کوئی کارروائی کی تو اس کی وہ کارروائی جائز نہیں ہوگی۔
’’ان مسائل میں اصل یہ ہے کہ ہر وہ تصرف جس میں رائے کا دخل ہو، جب وہ دو آدمیوں کے سپرد کیا جائے تو ان میں سے ایک آدمی اگر دوسرے کے مشورہ کے بغیر سرانجام دے گا تو جائز نہیں ہوگا۔ اگر دو وصیوں میں سے ایک مرجائے اور ایک جمات کو وصیت کرجائے تو ان میں سے ایک آدمی تصرف نہیں کرسکے گا۔ جب واقف د وآدمیوں کے سپرد ولایت کرے یا ولایت وصی اور امتوں کے سپرد ہو تو ان میں سے ایک آدمی واقف کے غلہ کو فروخت نہیں کرسکے گا۔‘‘ (سید محمد نذیر حسین)