سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(86) اگر دو مسجدیں ایک محلہ میں برائے غرض دین بنا کی جائیں

  • 5593
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1480

سوال

(86) اگر دو مسجدیں ایک محلہ میں برائے غرض دین بنا کی جائیں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں  کہ اگر دو مسجدیں ایک محلہ میں  برائے غرض دین بنا کی جائیں ایک اس میں  جامع مسجد ہے اس میں  بجز جمعہ اور نماز ظہر وعصر کے دیگر کوئی نماز نہیں ہوتی کیونکہ اس کے گردا گرد ہنود رہنے والے ہیں اور امام بھی بعد نماز عصر کے اپنے خانہ کو چلا اتا ہے اور دوسری مسجد مسلمانوں کے بیوت کےکنارے پر ہے، اس میں  سوائے جمعہ کے نماز بہ جماعت ہوتی رہتی ہے اور نماز جمعہ فریقین اتفاق سے مدت کثیر تک ایک جگہ مسجد جامع میں  پڑھتے تھے۔ آخر الامر عرصہ ایک ماہ سے بباعث فساد مذہبی کے کہ ہم لوگ دوسری مسجد والے اہل حدیث اور موحدین ہیں، انہوں نے ہمارے ساتھ فساد و شر کیا، ہم لوگوں نے واسطے دفع شر کے اپنی مسجد میں  علیحدہ جمعہ شروع کیا، دوسرے بھائی ہمارے جامع مسجد والے حنفی مذہب تھے، انہوں نے ہماری مسجد کو مسجد ضرار مقرر کیا اور عدم جواز صلوٰۃ کا فتوے دیا، بلکہ ہدم اور احراق کا حکم ہوا مگربباعث آئین سرکاری کے مجبور ہے اور چند دلیلیں مسجد ضرار ہونے کی ٹھہرائی ہیں۔

اوّل تو اپنے زعم فاسد کے موجب اس آیت کے مصداق میں  داخل کیا والذین اتخٍذوا مسجدا ضرار او کفرا و تفریقا بین المؤمنین وار صاد المن حارب اللہ و رسولہ الایۃ۔

دوسری قال[1] عطاء لما فتح اللہ علی عمر بن الخطاب الامصار امر المسلمین ان بینوا المساجد و امرھم ان لا یبنوا فی موضع واحد مسجدیں یضار احدھما الاخر ھکذا فی الخازن۔

تیسری  وقلیل[2] کل مسجد بنی مباھاۃ اوریاء او سمعۃ او لغرض سوی ابتغاء وجہ اللہ او بمال غیر طیب فہو لا حق بمسجد الضرار۔ کذا فی المدارک۔

واللہ باللہ ثم تا للہ ہم لوگوں نے صرف تقریباً باللہ کی وجہ سے عرصہ چار سال سےمسجد کو بنا لیا ہے نہ واسطے خرابات مذکورات کے ،حدیث شریف انما الاعمال بالنیات موجود ہے، یہی ہمارے بھائی حنفی ہمارے ساتھ اس مسجد میں  چند دفعہ نماز پڑھ چکے ہیں، مگر اب بباعث مخالفت کے مدت ایک ماہ سے مسجد ضرار ٹھہرا دیا ہے اور ہم نے فتنہ اور فساد اور دفع شر کے لیے  نماز جمعہ علیحدہ شروع کی نہ برائے غرض تفریق مؤمنین کے،دیگر کیا اظہار کروں واللہ تینوں دلیلوں مذکورہ بالااور قولہ فی موضع واحد مسجدیں یضارا احدھما الآخر کا اور معنی بیان فرما دیں اور جواز اور عدم جواز صلوٰۃ اور ضرار اور عدم ضرار کا فتوی زود تر تحریر فرما دیں۔ بینوا توجروا



[1]    حضرت عمرؓ ن جب شہروں کو فتح کیا تو مسلمانوں کو حکم دیا کہ مسجدیں بنائیں اور حکم دیا کہ ایک جگہ میں دو مسجدیں نہ بنائیں کہ ایک دوسری کونقصان پہنچے۔

[2]   ہر وہ مسجد جو فخر، ریا، ستانے کے لیے یا کسی اور غرض سے اللہ کی رضا مندی کے حصول کے علاوہ بنائی جائے ، وہ مسجد ضرار کے حکم میں  ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں  جب کہ اہل حدیث مذکورین نے اپنی مسجد کوعرصہ چارسال سے بنایا ہے اور قسم کھاتے ہیں کہ اس کو تقریباً باللہ بنایا ہے اور اب عرصہ ایک ماہ سے واسطے دفع شرو فساد احناف کے اس مسجد میں  جمعہ شروع کیا ہے تو وہ مسجد اس وجہ سے ہرگز ہرگز مسجد ضرار نہیں ہوسکتی اور اس میں  بلا شبہ نماز جائز درست ہے اور جو احناف اس مسجد کو مسجد ضرار قرا ردیتے ہیں اور اس کے عدم و احراق کا حکم دیتے ہیں اور اس عدم جواز کا فتوے دیتے ہیں (حالانکہ یہ احناف بھی اس میں  چند دفعہ نماز پڑھ چکے ہیں) وہ بہت ہی بڑے ظالم ہیں اور ساعی فی خراب المسجد میں  اور یہ احناف اس مسجد کے مسجد ضرار ٹھہرانے کی جو دلیلیں پیش کرتے ہیں ان میں  کسی دلیل سے یہ مسجد مسجد ضرار نہین ٹھہر سکتی۔

پہلی دلیل یعنی آیت والذین اتخذوا مسجد اضرار الخ سے یہ مسجد اس وجہ سے مسجد ضرار نہیں ٹھہر سکتی کہ اس آیت میں  جس مسجد کا بیان ہے اس کو بنایا تھا اور اس کی بنیاد ضرار اور کفر اور تفریق بین المؤمنین اور ارصاد لمن حارب اللہ و رسولہ پر تھی اور صورت مسئولہ میں  جس مسجد کو اہل حدیث نے بنایا ہے اس کی بنیاد تقرب الی اللہ پر ہے پس اس آیت سے یہ مسجد ،مسجد ضرار کیونکر ٹھہر سکتی ہے۔

اور قول حضرت عمرؓ سے یہ مسجد اس وجہ سے مسجد ضرار نہیں ٹھہر سکتی کہ اس قول کا مطلب یہ ہے کہ ایک مقام میں  ایسی دو مسجدیں نہیں بنانی چاہیں کہ ایک کی وجہ سے دوسری کو ضرر پہنچے اور سوال سے ظاہر ہے کہ صورت مسئولہ میں  ایک مسجد کو دوسری مسجد سے بجز نفع کے کچھ بھی ضرر نہیں ہے، پس اس قول حضرت عمرؓ سے بھی یہ مسجد، مسجد ضرار نہیں  ٹھہر سکتی۔

پس تیسری دلیل یعنی قیل کل مسجد بنی مباھاۃ اور یاء او سمعۃ الخ سے  بھی یہ مسجد ، مسجد ضرار نہیں ٹھہر سکتی اور رفع فتنہ و فساد اور دفع شر کے لیے جو اہل حدیث نے اس مسجد میں   نماز جمعہ علیحدہ شروع کی ۔ تو اس وجہ سے یہ مسجد ضرار نہیں ہوسکتی ،اس واسطے کہ جب کسی مسجد میں  نماز پڑھنے سے لوگ  روکتے ہوں اور فتنہ و شروفساد کرتے ہوئے تو دفع شر و فساد کی غرص سے علیحدہ مسجد بنانا اور اس میں  علاحدہ نماز قائم کرنا جائز درست ہے ، دیکھو جب مشرکین مکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو بیت اللہ شریف میں  نماز پڑھنے سے روکتے تھے اور نماز ادا نہیں کرنے دیتے تھے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے مکان کے صحن میں  ایک مسجد بنائی تھی اور اس میں  نماز ادا کرتے تھے جیسا کہ صحیح بخاری میں  موجود ہے ، واللہ تعالیٰ اعلم۔

حررہ احمد عفی عنہ                                                                             (سید محمد نذیرحسین)


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے