جس مسجد کی زمین وقف نہیں ہے ، بلکہ اس کی زمین خراجی ہے اور یہ زمین فی الحال ایک ہندو کے پاس گرد ہے اور مرتہن نیلام کے لیے مستعد ہے ، فقط مسلمانوں کے ڈر سے نیلام نہیں کرتا ہے ایسی زمین میں مسجد درست ہے یا نہیں اور مسجد کیسی زمین میں ہونی چاہیے اور وقف کی کیا تعریف ہے۔ بینوا توجروا
زمین مذکور میں مسجد بنانا درست نہیں ہے اس واسطے کہ جس زمین میں مسجد بنائی جائے اس زمین کا وقف ہونا ضروری ہے اور صورت مسئولہ میں زمین مذکور وقف نہیں ہے اوروقف کی تعریف یہ ہے۔ ھو[1] حبس العین علی حکم ملک الواقف والتصدق بالمنفعۃ ولو فی الجملۃ یعنی حبس کرنا عین کو ملک واقف کے حکم پر اور صدقہ کرنا منفعت کا اگرچہ فی الجملہ ہو اور صاحبین کے نزدیک وقف کی تعریف یہ ہے کہ ہو حبسہا علی حکم ملک اللہ و صرف منفعتہا علی من احب ولو غنیا فیلزم ولا یجوز لہ ابطالہ ولا یورث عنہ وعلیہ الفتوی کذا فی الدار المختار یعنی حبس کرنا عین اللہ کے ملک کے حکم پر اور صرف کرنا اس کے منفعت کا جس پر چاہے اگرچہ و ہ غنی ہو ، پھر جب واقف کی ملک سے خارج ہوا،تو وقف لازم ہوگیا تو واقف کو اس کا باطل کردینا جائز نہیں اور اس کا وارث اس کو وراثت میں نہ پائے گا اور صاحبین ہی کے قول پر فتوے ہے۔ کذا فی غایۃ الاوطار ،واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ حررہ عبدالرحیم عفی عنہ (سید محمد نذیر حسین)
[1] وہ جنہوں نے مسجد بنائی تکلیف دینے کے لیے ،کفر کرنے کے لیے ، مومنوں میں جدائی ڈالنے کے لیے اور اللہ و رسول کے برخلاف لڑائی لڑنے کے لیے گھات کی جگہ۔