کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک بستی میں دو مسجدیں ہیں، قدیم و جدید ، زید کہتا ہے کہ مسجد قدیم کی نماز فضیلت زیارہ رکھتی ہے بہ نسبت مسجد جدیدکے بکر کہتا ہے کہ سوا تین مسجدوں کے یعنی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ اور بیت المقدس کے اور سب مسجدیں از روئے ثواب کے برابرہیں یعنی ایک کو دوسری پر فضیلت نہیں ہے، اب ان دونوں میں سے کون شخص حق پر ہے۔بینوا توجروا۔
مسجد قدیم و جدید میں من حیث قدیم اور جدید ہونےکے فضیلت نماز میں کچھ تفاوت کسی دلیل سے ثابت نہیں ہوتا یعنی کسی دلیل سے یہ ثابت نہین ہوتاکہ مسجد قدیم کی نماز بہ سبب قدیم ہونےمسجد کے زیادہ فضیلت رکھتی ہے بہ نسبت نماز مسجد جدید کے ، ہاں ابن ماجہ کی ایک حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسجد جامع کی ایک نماز کا ثواب پانچ سو نماز کے برابر ہوتا ہے اور محلہ کی ایک نماز کا ثواب پچیس نماز کےبرابر ہوتا ہے ، پس اگر مسجد قدیم جامع مسجد ہے اور مسجد جدید جامع مسجد نہیں ہے تو مسجدہ قدیم کی نماز بسبب اس کے جامع ہونےکے زیادہ فضیلت رکھتی ہے بہ نسبت نماز مسجد قدیم کی نماز بسبب اس کے جامع ہونے کے زیادہ فضیلت رکھتی ہے بہ نسبت نماز مسجد جدید کے اور اگر مسجد جدید جامع مسجد ہے تو اس صورت میں مسجد جدید ہی کی نماز زیادہ فضیلت رکھتی ہے بہ نسبب نماز مسجد قدیم کے، اور ابن ماجہ کی وہ حدیث یہ ہے: عن[1] انس بن مالک قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلوۃ الرجل فی بیتہ بصلوۃ و صلوتہ فی مسجد القبائل بخمس و عشرین صلوۃ و صلوتہ فی المجسد الذی یجمع فیہ بخمس مائۃ صلوۃ رواہ ابن ماجہ واللہ تعالیٰ اعلم۔ عبدالرحیم عفی عنہ۔ (سید محمد نذیر حسین)
فقہاء حنفیہ نے تصریح کی ہے کہ مسجد قدیم افضل ہے مسجد جدید سے درمختار میں ہے ۔ افضل [2]المساجد مکۃ ثم المدینۃ ثم القدس ثم قباثم الاقدم ثم الاعظم ثم الاقرب انتہی۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔کتبہ محمد عبدالرحمنٰ المبارکفوری عفا اللہ عنہ
[1] آنحضرتﷺ نے فرمایا، کہ آدمی کی اپنے گھر میں نماز ایک نماز ہے اور محلہ کی مسجد میں پچیس نمازیں ہیں اورجامع مسجد میں ایک نماز پانچ سو نمازیں ہیں۔
[2] سب سے افضل مسجد خانہ کعبہ ہے، پھر مسجد نبوی، پھر بیت المقدس پھر سب سے قدیمی ، پھر سب سے بڑی ، پرھ سب سے قریب۔‘‘