سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(83) ایک چھپر کھپر یل پوش ڈال کرمسجد بنا رکھی ہے

  • 5590
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 889

سوال

(83) ایک چھپر کھپر یل پوش ڈال کرمسجد بنا رکھی ہے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں  کہ ہم ملازمان دفتر نے احاطہ دفتر میں  ایک چھپر کھپر یل پوش ڈال کرمسجد بنا رکھی ہے اور یہ مسجد ساگر پیشہ کے پس پشت ایک گوشہ میں  واقع ہے اور نماز ظہر و عصر وہاں ادا کرتے ہیں، اجازت لینے میں  احتمال ہے کہ مسجد اٹھا دی جائے سردست اسی کو غنیمت جان کر نماز پڑھ لیا کرتے ہیں اور نماز جمعہ دفتر سے کچھ دور کچہری کی مسجد میں  ہوتی ہے وہاں ہم لوگ نوکری کی پابندی کی وجہ سے جا نہیں سکتے، اس صورت میں  اور ایسی مسجد میں  نماز جمعہ بھی درست ہے یا نہیں،اور یہ مسجد جو کہ بغیر حکم حکام بالا بنائی گئی ہے ، مسجد کا حکم رکھتی ہے یا نہیں، اس کے حکم سے یعنی جواب سے آگہی بخشی جائے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ فقط


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

در صورتے کہ اجازت طلب کرنے میں  یہ احتمال ہے کہ مالک زمین مسجد کو اٹھوا دے تو معلوم ہوا کہ مالک زمین اس مقام پر مسجد کا ہونا روا نہیں رکھتا، پس ایسی حالت میں  وہ مسجد  حکم میں  نہیں ہے بلکہ ایک عام عمارت کے حکم میں  ہے، اس واسطے کہ کوئی زمین و عمارت حکم مسجد میں  نہیں ہوسکتی۔ تاوقتے کہ مالک کی طرف سے بصراحت امامت اذان و جماعت کااذن نہ حاصل ہوجائے یا آنکہ وہ بصراحت یہ نہ کہدے کہ میں  نے یہ عمارت یا یہ زمین ہمیشہ مسجد ہونے کو دے دی۔ وھذا[1] ممالم یختلف فیہ فکیف اذا اتخذ قوا ارض غیر ھم مسجد او تصرفوا فیہ ماشاء واعلی غیرحکم المالک بناء علیہ کہا جاتا ہے کہ یہ بقعہ جس کو سائلین نے مسجد تصور کیا ہے اس میں  کوئی نماز بغیر کراہت نہیں ہوتی تاوقتے کہ مالک سے صریح اجازت حاصل نہ کرلیں اس لیے کہ یہ زمین ایسے دغدغہ کی حالت میں  شبیہ الغصب کے حکم میں  ہے۔ والعلم عنداللہ      (محمد قمرالدین)

چونکہ یہ مسجد بلا حکم صاحب زمین کے بنائی   گئی ہے لہٰذا حکم مسجد کا نہیں رکھتی اور اس میں  نماز کا وہ ثواب نہیں ہوتا جومسجدمیں  ہوتاہے اور جمعہ بھی اس میں  جائز نہیں ہے ۔ فقط۔ الراقم محمد سدید الدین قریشی۔ اتقوا اللہ وقولوا قولا سدیدا

الجواب و ہو الموفق للصواب:

زمین مسئولہ عنہا حکم مسجد میں  کسی نہج سے نہیں ہوسکتی لیکن اس میں  نماز ادا کرنا باجازت ضمنی حاکم وقت جائز ہے ، اس لیے کہ انگریزی قانون و اشتہار میں  صاف طور پر لکھا ہے کہ کسی عبادت کو نہ روکا جائے اور جس قدر معابد ہیں سب سرکاری زمین میں  واقع ہیںگو نسبت اضافی زید و محمود کی طرف عائد ہو، اسی نسبت اضافی ہی کی وجہ سے معابد وغیرہ بفور و طرور وقف کا تحقق نہیں ہے ، اس لیے مسجد نہ قرار دی جائے گی مگر اس میں  نماز ادا کرنا بلا کراہت جائز ہے اور اگر اس اجازت ضمن سے قطع نظر کی جائے تو بھی یہ زمین فتار مصر اور جنگل میں  واقع ہے اور جنگل میں  نماز گزارنا بلا اجازت لینے کے کسی سے باتفاق فقہاء بلا کراہت جائز ہے کیونکہ جنگل علی سبیل الخصوصیت کسی کے ملک میں  نہیں ہوتا ہے۔  کما  قال صاحب الھدایۃ فی باب[2] المعادن والرکازوان وجدہ فی الصحراء فھولہ لانہ لیس فی یداحد علی الخصوص انتہی اور جمعہ  بھی اس زمین میں  جیسا ہندوستان میں  ہوتا ہے جائز ہے کیونکہ زمین مبحوثہ فناء مصر میں  واقع  ہے۔ وکما[3] یجوز اداء الجمعۃ فی المصر یجوز اداء ھا فی فناء المصر وھو الموضع المعد لمصالح المصر متصلا بالمصر انتہی ما فی العالمگیریۃ حررہ و اجابہ احمد حسن عفی عنہ۔ الجواب صحیح۔شہاب الدین۔ اصاب فیما اجاب واللہ الموفق للصواب والیہ المرجع والماب۔ عبدالغفور عفی عنہ مدرس مدرسہ درگاہ۔ الجواب صحیح۔ غلام یحییٰ                               (سید محمد نذیر حسین)

جناب حضرت میان صاحب مدظلہم کو بعد سنانے دونوں جوابوں کے دوسرے جواب پر ان کی مہر ثبت کی گئی۔الجواب الثانی صحیح۔ سید ابوالحسن۔الجواب الثانی صحیح سید محمد عبدالسلام۔ 21 ذ الحجہ 1316ھ



[1]   یہ وہ مسئلہ ہے جس میں  کسی بھی اختلاف نہیں ہے، پھراندازہ کرو اگر کوئی قوم کسی زمین کومسجد بنا لے یا مالک کے علم کے بغیر اس میں  اپنی مرضی سے جس طرح چاہے تصرف کرے تو اس کا کیا  حال ہوگا۔

 

[2]   اگر اس (خزانہ) کو صحراء میں  پائے تو وہ اسی کا ہے ، اس لیےکہ وہ جگہ کسی خاص آدمی کی نہیں ہے ۔

[3]  جس طرح  شہر میں  جمعہ جائز ہے ، شہر کے صحن میں  بھی جمعہ جائز ہے اور شہر کا صحن وہ گراؤنڈ وغیرہ ہوتی ہے جو شہر سے متصل شہری ضرورتوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے