کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک جماعت مسلمانوں کی جومدت دراز سے موافق قرآن و حدیث کے عمل کرتی تھی اور رسومات آبائی سے متنفر ،بعد اس کے جو سردار اس جماعت کے تھے، انہوں نے بعض بدعت کرنا اختیار کیا اور باعث اختیار کرنے بدعت کا یہ ہےکہ اس میں دنیا حاصل ہوتی ہے تو اکثر لوگ جو اس قسم کے تھے ،ہمراہ سردار اپنے کے ہوئے ، اور کچھ لوگوں نے سردار مذکور سے کہا کہ تم نے یہ بدعت جو اب اختیار کی ہے چھوڑ دو، ورنہ ہم تمہارے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑ دیں گے، اسپر بھی بدعت کرنے سےباز نہ آئے تو وہ لوگ ناچار ہوکر اپنے مکان میں مسجد تعمیر کرکے جمعہ و جماعت اداکرنے لگے لیکن سردار مذکور اور تابعداران ان کے کہتے ہیں کہ یہ مسجد ضرار ہے ، اس میں نماز روا نہیں ہے، اس واسطے سوال کیا جاتا ہے کہ یہ مسجد جو اس باعث سے بنی ہے حکم میں ضرار کے ہے یا نہیں اور مسجد ضرار ہونے کی کیا صورت ہے، دلیل شرعی سے۔ بینوا توجروا۔
یہ مسجد حکم میں ضرار کے بالکل نہیں کیونکہ آیت کریمہ میں مسجد ضرار چار وجہ سے مردود ہوئی تھی:
ایک وجہ یہ کہ ضرر دوسری مسجد کا متصور ہو، بسبب عدم رعایت حال مسجد قبا کے۔
دوسری وجہ بنا پرکفر کرنے اللہ و رسول کے ساتھ۔
تیسری وجہ تفرقہ ڈالنا درمیان جماعت مسلمانوں کے بقصد درہم برہم ہونےشوکت و ہیبت مسلمانوں کےکافروں پر۔
چوتھی وجہ یہ کہ ارصاد و امداد کرنا اس بہانہ سے کفار مجاہدیں کی کہ جو اللہ و رسول سے مقابلہ کرتے اور لڑتے تھے۔
اور مضامین آیت کریمہ کو حمل کرنا اوپر مسجد ہذا کے خالی ضد و تعصب سے نہیں ہوگا کیونکہ جب مردمان مجتنبین بدعت نے مخترعین بدعت سے کہا کہ تم بدعت مخترعہ کو چھوڑ دو تو ہم لوگ تمہارے ساتھ ہیں، پھر جب وہ مخترعین بدعت ارتکاب بدعت سے باز نہ آئے بلکہ اپنی بدعت مخترعہ پر اڑے رہے تو مجتنبین بدعت نے لاچار ہوکر بنا بر رفع شروفساد کے مباداآپس میں زیادہ تر مفسدہ نہ ہونے پائے کنارہ ہوکر دوسری مسجد تعمیر کی اور نیز مکروہ ہونے نماز خلف مبتدع کے بپاس رضائے مولی مفارقت اختیار کی، کیونکہ اجتناب اہل بدعت سے واجب ہے جیسا کہ اہل حدیث و فقہ پر مخفی نہیں ہے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ ن اسی خوف مفسدہ دنیوی و دینی سے قبل ہجرت کے ایک مسجد چھوٹی سی اپنے گھر کے پاس بنا کر اسی میں نماز پڑھتے اور وعظ کرتے اور مسجدالحرام کو چھوڑ کر اپنی مسجد کو اختیارکیا ، حالانکہ مسجد حرام میں لاکھ نماز کا ثواب ملتا ہے مگر خوف فساد و جنگ و جدال کے جدی مسجد تعمیر کی، چنانچہ صحیح بخاری وغیرہ میں مفصلاً مذکور ہے اور فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ نے بھی لکھا ہے کہ بنا بر کسی مصلحت و دفع مضرت کے ایک مسجد کو بیچ میں دیوار اٹھا کر دو مسجد بنا لینا جائز ہے اور دو مسجد کو ایک کرلینا بھی درست ہے چنانچہ درمختار و فتاوے عالمگیری وغیرہ سے واضح ہوتا ہے ، اسی قیاس پر قند مردم مجتنبین بدعت نے بھی علیحدہ مسجد بنا لی اس میں کسی طرح کا حرج نہیں ، بلکہ بباعث اجتناب اہل بدعت کے موجب ثواب کا ہوگا۔ کما[1] لا یخفی علی الماھر بالشریعۃ الغواء یجوز لاھل المحلۃ ان یجعلوا المسجد الواحد مسجدین فلھم ان یجعلوا مسجدین واحدا۔ انتہی ما فی العالمگیریۃ مختصرا فی باب الکراھۃ وھکذا فی الدر المختار فی کتاب الصلوٰۃ و غیرھما من کتب الشریعۃ واللہ اعلم بالصواب۔ (سید محمد نذیر حسین)
[1] اہل محلہ کو جہاں یہ جائز ہے کہ ایک مسجد کو دو مسجدیں بنا لیں وہاں یہ بھی جائز ہے کہ دو مسجدوں کو ایک بنا لیں۔ فتاویٰ عالمگیری میں ایسا ہی ہے۔