کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کشی شخص نے ارادہ کیا اپنے گاؤں میں مسجد بنانے کا اور اس کی تعمیر کے لیے اس نے ایک ٹکڑا زمین کی آمدنی وقف کی، اس عرصہ تک کے لیے جب تک مسجد تیار نہ ہوجائے ، آمدنی تو جمع ہوتی ہے مگر مسجدکی تعمیر ابھی شروع نہیں کی گئی اب وہ شخص اپنے ارادہ کو اس خیال سے بدلنا چاہتا ہے کہ جس گاؤں میں اس نےمسجد بنوانے کا ارادہ کیا تھا اس میں آبادی اہل اسلام کی نہیں ہے ، صرف ایک یا دو آدمی نماز پڑھنے والے ہیں، باقی گو چند مسلمان بھی آباد ہیں ، مگر نام کے مسلمان ہیں، کوئی صورت ان میں دینداری کی نظر نہیں آتی کیا اگر وہ شخص اس رقم کو کسی دوسری جگہ کی مسجد کی تعمیر میں صرف کردے تو کوئی شرعی مواخذہ تو اس پر عائد نہیں ہوجاتا نیز کیا اس ارادہ کو بدلنے کی حالت میں کوئی دین تو اس پرعائد و لازم نہیں آتا، اگر آتا ہے تو کس قدر۔
صورت مرقومہ میں اگر وہ شخص اس رقم کو کسی دوسری جگہ کی مسجد کی تعمیر میں صرف کردے تو کوئی شرعی مواخذہ اس پرنہیں ہے اور نہ کوئی فدیہ و کفارہ اس پر لازم آتا ہے۔ واللہ اعلم و علمہ اتم۔ کتبہ محمد بشیر عفی عنہ۔ (سید محمد نذیر حسین)