سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(75) ایک قطعہ زمین خریدی اور ان میں ایک ہندو بھی ہے..الخ

  • 5582
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1131

سوال

(75) ایک قطعہ زمین خریدی اور ان میں ایک ہندو بھی ہے..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتےہیں، علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں  کہ بارہ شخص نے ایک قطعہ زمین خریدی اور ان میں  ایک ہندو بھی ہے، بعد خریدنے کے پانچ سو آدمیوں کو نفع اور نقصان کا شریک کرلیا اور سو سو روپیہ ہر ایک شخص سے لے لئے اور ان پانچ سو میں  غریب اور یتیم اور بیوہ عورتیں شریک ہیں، بروقت نیلام کرنے کے اکثر شرکاء موجود تھے، بعد نیلام کرنے کے ایک قطعہ زمین کل میں  سے ان بارہ آدمیوں نے علیحدہ کردی اور یہ کہا کہ نیچے بیٹھک اور اوپر مسجدبنائیں گے، مسجد بنانا اس طریق سےدرست ہے یا نہیں اور اکثر شرکاء مسجد بنانے میں  راضی نہیں ہیں اور اپنے حصہ کی قیمت چاہتے ہیں۔ اگر ان حصہ داروں میں  سے ایک شخص بھی تعمیرمسجد سے ناراض رہا تو تعمیر مسجد درست ہوئی یا نہیں، بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 صورت ہذا میں  مسجد بنانا جائز نہیں ، کس واسطے کہ جب زمین مشترکہ ہے اور اس کے ہر ہر جزو میں  ہر شخص کا حصہ ہے اور بعض اشخاص بدونرضامندی دیگر شرکاء مسند بنانا چاہتے ہیں تو یہ ہرگز جائز نہیں اور اگر بنا دیں گے تو ظالم قرار دیئے جائیں گے کیونکہ  حق یتیمان و بیوگان تلف کرتے ہیں اور اگر وقف بھی کردیں گے تو وہ وقف باطل ہوگا، بحر الرائق میں  ہے ۔ فلو[1]ا ستحق الوقف بطل اور ظاہر ہے کہ وقف کے واسطے ملک شرط ہے بحرالرائق میں  ہے۔ من شرائطہ الملک وقف الوقف حتی لو غضب الرضا فوقفہا ثم اشتراھا من مالکھا ودفع الثمن الیہ او صالح علی مال دفعہ الیہ لاتکون وقفا یعنی شرائط وقف سے الگ ہونا ہے شئے موقوفہ کا وقت وقف کے یہاں تک کہ اگر وقف کیا زمین مغصوبہ کو اور پھر خرید لیا مالک سے اور قیمت بھی دے دی یا صلح کی مال پر تو بھی وقف صحیح نہیں ہوگا کیونکہ وقت وقف کے مالک نہ تھا اور یہاں تو اس قدر  شرکاء ہیں، جب تک ایک بھی ناراض رہے گا یا کوئی ان میں  سے کافر ہوگا تو وہ وقف جائز نہ ہوگا واسطےمسجد کے ، کیونکہ کافر کا مال مسجد میں  لگانا جائز نہیں، ہاں بعض شرکاء اگر قطعہ زمین خرید لیں اور کل شرکاء راضی ہوجائیں یا بعض شرکاء اپنا حصہ علیحدہ کرلیں اور قیمت ادا کردیں تو درست ہوگا یا قیمت کل شرکاء کو تقسیم ہوجائے ، ان کی رضا سے۔ فقط ۔ حررہ محمد کرامت اللہ، الجواب صحیح فتح محمد مدرس فتحپوری

واضح دلائح ہو کہ اصل شرکت ہی مسئلہ میں  صحیح و جائز نہیں، یہ تقریر جواب شئے اور ہے، یہ تقریربعد شرکت صحیح ہونے کے ہوگی، والضرب الثانی شرکۃ العقود ورکنھا الایجاب والقبول وھوان یقول احدھما شارکتک فی کذا و کذا و یقول الاخر قبلت ثم ھی اربعۃ اوجہ مفاوضۃ و عنان و شرکۃ الصنائع و شرکۃ الوجوہ فاما شرکۃ المقاوضۃ فھی ان یشترک الرجلان فیساویان فی مالھما و تصرفہما و دینہما الخ کذا فی الھدایۃ۔ ولا بین مسلم و الکافر کذا فی متن الھدایۃ واللہ اعلم۔   محمد یعقوب                                                                                     (سید محمد نذیر حسین)

ترجمہ:’’دوسری قسم شرکت عقود ہے اور ان کا  رکن ایجاب و قبول ہیں اور وہ اس طرح ہے کہ ایک کہے میں  نے  تجھے فلان چیز میں  شریک کیا اور دوسرے کہے میں  نے قبول کیا،پھر اس کی چارقسمیں  ہیں شرکت مفاوضہ و عنان و شرکت صنائح اور شرکت وجوہ اور شرکت مفاوضہ یہ ہے کہ دو آدمی ہوں اور مالیت ، تصرف اور قرض میں  برابر ہوں اور یہ شرکت کافر اور مسلمان میں  نہیں ہوسکتی۔‘‘



[1]   اگر کوئی حق دار ہو، تو وقف باطل ہوجائے گا۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے