کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ حنفیہ کے نزدیک اگر کنویں میں کوے کی بیٹ گر جائے تو کنواں ناپاک ہے یا نہیں؟
جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا، ان کی بیٹ کے متعلق فقہ میں مختلف روایتیں ہیں، ہدایہ میں ہے اگر غیر ماکول اللحم جانور کیبیٹ درہم سے زیادہ لگ جائے، تو اس کپڑے سے امام ابوحنیفہ اور ابویوسف کے نزدیک نماز جائز ہے امام محمد کے نزدیک جائز نہیں، پھر بعض کے نزدیک تو اختلاف نجاست یا غیر نجاست میں ہے اور بعض کے نزدیک مقدار میں اور صحیح آخری شق ہے ، امام محمد کہتے ہیں نجاست خفیفہ کسی صورت کی بنا پر ’’خفیفہ‘‘ بنتی ہے،اور یہاں کوئی ضرورت نہیں اور شیخین کہتے ہیں کہ یہ مجبوری کی بنا پرہے، کیونکہ پرندے ہوا سے بیٹ پھینک دیتے ہیں اور اس سے بچنا مشکل ہے، تو ضرورت پیدا ہوگئی اگر ایسے پرندے کی بیٹ برتن میں گر پڑے تو اس میں بھی اختلاف ہے بعض کے نزدیک وہ پلید ہے اور بعض کے نزدیک نہیں، کرخی کے قول کے مطابق شیخین کے نزدیک ایسے پرندوں کی بیٹ سرے سے پلید ہی نہیں محمد اس کو پلید کہتے ہیں، ہندوانی نے کہا کہ امام صاحب کے نزدیک یہ بیٹ نجاست خفیفہ ہے اور صاحبین کے نزدیک غلیظہ ، قاضی خان نے کہا کہ ایسے پرندوں کی بیٹ شیخین کے نزدیک نجس ہے، اگر تھوڑے پانی میں گرے، تو ناپاک ہوجاتا ہے اور کرخی کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک نجس نہیں ہے اور صاحب مبسوط نے اسی کو پسند کیا ہے۔
علامہ طحطاوی نے کہا ہے ’’اگر ایسے پرندوں کی بیٹ کنویں میں گر پڑے جن کاگوشت کھانا حرام ہے تو اس سے کنواں ناپاک نہیں ہوتا‘‘ درمختار میں بھی ایسا ہی ہے ، حلبی کا بھی یہی قول ہے ، تو ان تینوں کے فتویٰ پرکنویں کا پانی پاک ہے۔ واللہ اعلم۔