سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(70) اگر کتا کنویں میں گر پڑے، تو اس کا کیا حکم ہے

  • 5577
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 2894

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کتا کنویں میں  گر پڑے، تو اس کا کیا حکم ہے۔ بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر کتا کنویں میں  گر پڑے اور پانی کا رنگ یا مزہ یا بُو تبدیل نہ ہو تو وہ پانی پاک ہے ورنہ ناپاک ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ، پانی پاک ہے ، اس کو  کوئی چیز پلید نہیں کرسکتی اور پھر یہ بھی فرمایا کہ پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرسکتی، ہاں! اگر کوئی چیز ناپاک اس کے رنگ یا مزہ یا بُو پر غالب آکر اس کو بدل دے تو ناپاک ہوجاتا ہے۔ اس حدیث کو ابوحاتم نےضعیف کہا ہے لیکن دوسرے طرق سے اس کی تائید ہوجاتی ہے اور دوسری حدیث کے آخری حصہ پر امت کا اجماع ہے یعنی اگر ناپاک چیز پانی میں  گر کر اس کے رنگ یا مزہ یا بُو کو بدل دے تو وہ ناپاک ہے، اس حدیث کے پچھلے حصہ پر اجماع ہی  اس کے پہلے حصہ کی بھی توثیق کردیتا ہے، چنانچہ سبل السلام شرح بلوغ المرام میں  اس کو تفصیلاً ذکر کیا ہے، ہاں اگر پانی دو قلہ (قریبا پانچ مٹکے) سے کم ہو تو وہ نجاست کے گرنے سے ناپاک ہوجائے، خواہ اس کا رنگ یا ببُویا  مزہ بدلے یا نہ بدلے، چنانچہ بلوغ المرام میں  حدیث ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: جب پانی دو قلہ ہو تو وہ ناپاک نہیں ہوتا، یہ تحقیق تو از روئے حدیث ہے۔

فقہ حنفی کی رو سے اس کنویں کا تمام پانی نکالا جائے گا ، چنانچہ ہدایہ میں  ہے، اگر کنویں میں  بکری یا آدمی یا کتا گر کر مرجائے تو اس کا تمام پانی نکالا جائے گا ، کیونکہ ابن عباس اور ابن زبیر نے ہی فتویٰ دیا تھا جب کہ زمزم کے کنویں میں  ایک حبشی گر کر مرگیا لیکن یہ حکم کئی لحاظ سے قابل تسلیم نہیں ہے۔

اولاً اس لیے کہ اس کی بنیاد ابن عباس اور ابن زبیر کے فتوے پر ہے اور وہ فتویٰ کئی لحاظ سے مخدوش ہے ۔ اولاً اس لیے کہ اس کی سند ضعیف ہے، چنانچہ درایہ تخریج ہدایہ میں  لکھا ہے کہ ’’حبشی والی حدیث کی  سند منقطع ہے کیونکہ ابن سیرین کی ابن عباسؓ سے ملاقات نہیں ہوئی اور اس کے چن دایک طرق بھی ہیں جو کہ سب کے سب ضعیف ہیں۔

ثانیاً اگر اس کی صحت تسلیم کر بھی لے جائے تو اس سے حجت نہیں لی جاسکتی کیونکہ صحابی کا قول ہے اور وہ احناف کے نزدیک بھی حجت نہیں ہے، چنانچہ محمد طاہر پٹنی حنفی نے مجمع البحار میں  اس کی تصریح کی ہے۔

ثالثاً اگر صحابی کے قول کو حجت تسلیم کربھی لیا جائے  تو حدیث صحیح مرفوع کا معارض نہیں ہوسکتا، چنانچہ فتح القدیر کتاب الصلوٰۃ میں  خود علماوے احناف نے اس کوتسلیم کیا ہے۔

حاصل کلام یہ کہ ابن عباسؓ کا فتویٰ وجوہ مذکورہ بالا کی بنا پر قابل قبول نہیں ہے اور اسی بنا پر ہدایہ کا بھی فیصلہ قبول نہیں، بڑے تعجب کی بات ہے کہ احناف اس کنویں کے پانی کو تو ناپاک کہتے ہیں اور اس پانی کوجو  اس سے سینکڑوں حصہ کم ہے اور گندگی اس سے زیادہ ہے، اس کو پاک کہہ لیتے ہیں۔ فتاویٰ عالمگیری میں  ہے اگر بارش کےوقت مکان کے پرنالے میں  گندگی (پاخانہ وغیرہ) پڑی ہو اور بارش کاپانی اس کے ساتھ لگ کر بہہ رہا ہو تو اگر  آدھے سے زیادہ یا آدھا پانی لگ کر گزرے تو ناپاک ہے اور اگر آدھے سے کم لگ کر گزرے تو پاک  ہے اور اگر  مکان کی چھت پر متفرق طور پر گندگی پڑی ہو اور بارش کا پانی برس کر پرنالے سے گرے تو وہ پانی پاک ہے۔ (سبحان اللہ کیا تحقیق ہے) اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے یہ پانی جاری ہے۔ واللہ اعلم۔

الراقم ابو محمد عبدالحق اعظم گڈھی عفی عنہ                  (سید محمد نذیر حسین)

ہوالموفق:

حافظ ابن حجر نے درایہ صفحہ 30 میں  لکھا ہے کہ بیہقی نے ابن عینیہ سے نقل کیا ہےکہ میں  مکہ  میں  ستر سال رہا، میں  نے کسی چھوٹے یابڑے سے حبشی والی حدیث نہیں اور نہ ہی زمزم کے پانی نکالنے کا قصہ کسی سے سنا، امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر بالفرض یہ واقعہ صحیح بھی ہو، تو ہوسکتا ہے کہ زمزم کا پانی  متغیر ہوگیا ہو، واللہ اعلم۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ