سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(67) منی پاک ہے یا ناپاک؟

  • 5574
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 8202

سوال

(67) منی پاک ہے یا ناپاک؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے اہل حدیث اس مسئلہ میں  کہ منی پاک ہے یا ناپاک۔ بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

منی  کے پاک اور ناپاک ہونے کے بارے میں  حدیثیں مختلف آئی ہیں، بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ منی پاک ہے اور بعض سے ظاہر ہوتا ہے کہ ناپاک ہے، اسی وجہ سے اس بارے میں  علماء کی رائیں مختلف ہیں، امام شافعی اور امام احمداور اصحاب الحدیث کے نزدیک منی پاک ہے، امام نووی نے صحیح مسلم کی شرح میں  لکھا ہے کہ بہت سے لوگوں کا مذہب ہے کہ منی پاک ہے اور حضرت علی ؓ اور سعد بن وقاص اور عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت  عائشہؓ سے بھی مروی ہے کہ منی پاک ہے اور امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک ناپاک ہے۔

اصحاب الحدیث کے نزدیک منی کے پاک ہونے کی تصریح حافظ ابن حجر نے فتح الباری صفحہ 165 جلد 1 میں  اور نووی نے شرح صحیح مسلم صفحہ 140 میں  کی ہے مگر متاخرین اہل حدیث میں  علامہ شوکانی کی تحقیق یہ ہے کہ منی ناپاک ہے،چنانچہ انہوں نے نیل الاوطار صفحہ 54 جلد1 میں  اس مسئلہ کو مع مالہادماعلیہا لکھا کر آخر میں  لکھتے ہیں، فالصواب[1] ان المنی نجس یجوز تطہیرہ باحد الامور الواردۃ انتہہی، یعنی صواب یہ ہے کہ منی نجس ہے اس کا پاک کرنا کسی ایک طریقہ سے منجملہ ان طریقوں کے جو احادیث میں  وارد ہیں جائز ہے۔

جن علماء کے نزدیک منی پاک ہے ، ان کی دلیل وہ حدیثیں ہیں جن میں  منی کے کھرچنے اور چھیلنے کا ذکر ہے، وہ کہتے ہیں کہ اگر منی ناپاک اور نجس ہوتی تو اس کا صرف کھرچنا و چھیلنا کافی نہ ہوتا بلکہ اس کا دھونا ضروری ہوتا، جیسے کہ تمام نجاستوں کا حال ہے اور جن حدیثوں میں  منی کے دھونے کا بیان ہے ان احادیث کواستحباب پر محمول کرتے ہیں اور ان لوگوں کی ایک دلیل ابن عباسؓ کی یہ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا منی کے بارے میں  جوکپڑے میں  لگ جائے تو آپ نے فرمایا منی بمنزلہ تھک اور رینٹ کے ہے، کسی خرقہ سے یا اذخر سے اس کا پونچھ ڈالنا کافی ہے۔ رواہ الدارقطنی قال فی المنتقی بعد ذکرہ رواہ الدارقطنی وقال لم یرفعہ غیر اسحق الازرق عن شریک قلت وھذا لایضرلان اسحق امام مخرج عنہ فی الصحیحین فیقبل رفعہ و زیادتہ انتہی، اور ان لوگوں  کی ایک دلیل حضرت عائشہؓ کی یہ روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اپنے کپڑے سے منی کو اذخر کی جڑ سے پونچھتے تھے پھراس میں  نماز پڑھتے تھے۔ اور جب کہ خشک ہوتی تو کپڑے  سے کھرچتے تھے پھر اس میں  نماز پرھتے تھے ۔ اخرجہ احمد فی مسند و ذکرہ فی المنتقی۔

اور جو علماء منی کو ناپاک کہتے ہیں ، ان کی دلیل وہ حدیثیں ہیں جن میں  منی کے دھونے کا ذکر ہے، وہ کہتے ہیں کہ منی اگرپاک ہوتی تو اس کے دھونے کی کیا ضرورت تھی جو چیز نجس و ناپاک ہوتیہے وہی دھوئی جاتی ہے اور ان لوگوں کی ایک دلیل عمار کی یہ مرفوع روایت ہے کہ نہ دھویا جائے کپڑا مگر پائخانہ اور پیشاب اور مذی اور منی اور خون اور قے سے ، مگر یہ روایت ضعیف ہے ۔ (دیکھو نیل الاوطار صفحہ 54 جلد1)

حافظ ابن حجر فتح الباری میں  لکھتے ہیں کہ منی کے دھونے اور منی کے کھرچنے کی حدیثوں میں  تعارض نہیں ہے کیونکہ جو لوگ منی کے پاک ہونے کے قائل ہیں ان کے قول پر ان احادیث میں  تطبیق و توفیق واضح ہے ، بایں طور کہ دھونے کو استحباب پر محمول کریں، تنظیف کے لیے نہ وجوب پر اور یہ طریقہ شافعی اوراحمد اور اہل حدیث کا ہے اور جولوگ منی کی نجاست کے قائل ہیں ان کےقول پربھی ان احادیث میں  تطبیق ممکن ہے ،باین طور کہ دھونے کو تر منی پرمحمول کریں اور کھرچنے کو خشک پر اور یہ طریقہ حنفیہ کا ہے، پھر  حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ پہلا طریقہ ارجح ہے کیونکہ اس میں  حدیث اور قیاس دونوں پرعمل ہوتا ہے،اس واسطے کہ منی اگر نجس ہوتی تو قیاس یہ تھا  کہ اس کا دھونا واجب ہوتا اور اس کا صرف کھرچنا کافی نہ ہوتا جیسے خون وغیرہ اور دوسرے طریقہ کو حضرت عائشہؓ کی یہ روایت رد کرتی ہے کہ ’’وہ رسول اللہﷺ کے کپڑے سے منی کو اذخر کی جڑ سےدور کرتی تھیں پھر آپ اس میں  نماز پڑھتے تھے  اورجب کہ منی خشک ہوتی تو آپ کے کپڑے سے کھرچتی تھیں، پھر آپ اس میں  نماز پڑھتے تھے اس واسطے کہ یہ روایت متضمن ہے ترک غسل پرمنی کے تر ہونے کی حالت میں  بھی اور خشک ہونے کی حالت میں  بھی ۔ عبارۃ الفتح ہکذا۔

’’منی کوکھرچ دینے اور دھونے کی حدیثوں میں  تعارض نہیں ہے، کیونکہ جو لوگ منی کو پاک کہتے ہیں ، ان کے مذہب پر یہ اس طرح جمع ہوسکتی ہیں کہ دھونا استحباب پرمحمول کیا جائے نہ کہ وجوب پر ، امام احمد ، شافعیاور اہل حدیث کا یہی مذہب ہے اور جو اس کو ناپاک کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس طرح جمع ہوسکتی ہیں کہ ترکے لیے  دھونا ہے اور خشک کے لیے کھرچنا ، یہ احناف کا مسلک ہے اورمسلک اوّل زیادہراجح ہے کیونکہ اس میں  حدیث اور قیاس دونوں پر عمل ہوسکتاہےکیونکہ اگر منی ناپاک ہوتی تو اس کا دھونا خون کی طرح واجب ہوتا، کھرچنے کی اجازت نہ ہوتی کیونکہ حنفی جب خون کے پلید ہونے کے قائل ہیں تو اس ک کھرچنے کے قائل نہیں، بلکہ اس کا دھونا ضروری سمجھتے ہیں اور پھر دھونے کی روایت ایک اور طریق سےبھی آئی ہے کہ حضر ت عائشہؓ اذخر کے پانی سے  اسےمدھم کردیتیں یا کھرچ ڈالتیں، اس سے دونوں طرح دھونے کا ترک ثابت ہوگیا۔‘‘ (سید محمد نذیر حسین)



[1]   صحیح یہ  ہے کہ منی ناپاک ہے اور اس کو تینوں طریق منقولہ سے پاک کیا جاسکتا ہے۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے