کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ موضوع علم حدیث کا کیا ہے اور اس کی تعریف اور اس کی غایت کیا ہے۔ بینوتوجروا
موضوع علم حدیث کارسول اللہﷺ کی ذات بابرکات ہے، اس حدیث سے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور موضوع باعتبار شرعی احوال کے ہیں۔ موضوع[1] علم الحدیث ھو ذات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من حیث انہ رسول اللہ من الاحوال الشرعیۃ اورعلم حدیث ان قوانین کانام ہے ، جن سے احوال سند اور متن کےباعتبار صحت اور حسن اور ضعف اورعلو اور نزول اور کیفیت تحمل اور اداء یعنی پڑھنے پڑھانے اور رجال یعنی راویوں کے حالات وغیرہ معلوم ہوں اور سند متن کےطریق سے خبر دینے کانام ہے اور متن وہ ہے کہ جس پر کلام ختم ہو سیوطی نے اتمام الدرایہ میں ایسا ہی لکھا ہے۔علم الحدیث[2] علم بقوانین یعرف بھا احوال السند من صحۃ و حسن وضعف و علو و نزول و کیفیۃ التحمل والاداء و صفات الرجال وغیر ذلک والسند الاخبار عن طریق المتن والمتن ماینتہی الیہ غایۃ الکلام انتہی ملخصاً من اتمام الدرایۃ اور حدیث کی غایۃ اور فائدہ سعادت دارین کی کامیابی ہے واما[3] غایتہ وفائدتہ فھی الفوز بسعادۃ الدارین۔ (سیدمحمد نذیر حسین)
[1] علم حدیث کا موضوع آنحضرتﷺ کی ذات بحیثیت شرعی ہے۔
[2] علم حدیث ایسے قوانین کا نام ہے جس س ے سند کے حالات ، صحت ،حسن، ضعف ، بلندی، پستی اور رد و قبول اور آدمیوں کے حالات معلوم ہوتے ہیں اور سند طریق متن کی خبر کا نام ہے اور متن وہ ہے جہاں کہام کی انتہا ہو۔
[3] علم حدیث کا فائدہ یہ ہے کہ دونوں جہانوں میں آدمی کامیاب ہو۔