کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مابین اہل اسلام ملک کشمیر کے تنازع دربارہ صحابیت معمر حبشی اور تابعیت علی ہمدانی کے واقع ہوکر دو فریق ہوگئے ہیں، دعوےٰ ایک فریق کا یہ ہے کہ ’’ایک شخص معمر حبشی نام حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے تھا، آپ کی دعا کی برکت سے ہمارے حضرت علیہ السلام کے زمانہ بابرکت تک زندہ رہ کر پھر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر شرف صحبت حاصل کیا من بعد بدعائے حضرت علیہ السلام لغایت 700 ہجری تک زندہ رہے کر حضرت علی ہمدانی سے ملاقات کی جس کی وجہ سے فریق مذکور حضرت علی ہمدانی کے تابعی ہونے کا مدعی ہے‘‘ اور فریق ثانی کا دعوی ہےکہ ’’معمر حبشی کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے ہونا اور آنحضرتﷺ کے زمانہ تک زندہ رہ کر شرف صحبت حاصل کرنابالکل غلط و باطل ہے کیونکہ یہ بات کسی دلیل سے ثابت نہیں و نیز معمر حبشی کا 700ہجری تک زندہ رہنا چونکہ مخالف صحیح حدیث بخاری و مسلم (ما من نفس منفوسۃ یاتی علیہا مائۃ سنۃ الحدیث) کے ہے باطل و مردود ہے پس جب کہ معمر حبشی کا صحابی ہونا پایہ ثبوت کو نہ پہنچا تو اس سے علی ہمدانی کا تابعی نہ ہونابھی اظہر من الشمس ہے اور درمیان دونوں فریقوں کے نوبت باین جارسید کہ ایک فریق دوسرے کو گمراہ و بے دین تصور کرتا ہے ، اب ان ہردو فریقوں میں سے حق بجانب کس کے ہے۔ بینوا توجروا۔
ان دونوں فرقوں میں حق بجانب فریق ثانی ہے اور فریق اوّل کا دعوے بلا شبہ باطل و مردود ہے ، فریق اوّل کا دعویٰ چار باتوں پرمشتمل ہے:
(1) معمر حبشی کا عیسیٰ علیہ السلام کے حواریین میں سے ہونا۔
(2) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ہمارے حضرتﷺ کے زمانہ تک اس کا زندہ رہنا۔
(3) اس کا آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر شرف صحبت حاصل کرنا۔
(4) بدعائے آنحضرتﷺ اس کا 700ہجری تک زندہ رہ کر علی ہمدانی سےملاقات کرنا۔
ان چار باتوں میں سے ایک بھی کسی دلیل صحیح سے ثابت نہیں، بلکہ چاروں باتیں بالکل غلط و سراسر باطل ہیں بناء علیہ فریق اوّل کا دعویٰ باطل و مردود ہے بہت سے معمرین سے آنحضرتﷺ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہونے اور شرف صحبت حاصل کرنےکا جھوٹا دعویٰ کیاہے،یا ان کی طرف اس بات کی غلط نسبت کی گئی ہے ان معمرین کے دعویٰ کی تردید اور ان کی طرف اس بات کی نسبت کی تغلیط محدثین رحمہم اللہ تعالیٰ نے خوب اچھی طرح سے کردی ہے ، علامہ شوکانی نے الفوائد المجموعہ صفحہ 145 میں بہت سے معمرین کذابین مدعیان صحبت کا ذکر مع ان کی تکذیب کے کیا ہے، پھر آخر میں لکھتے ہیں:
ومما[1] یدفع دعاوی ھؤلاء اجماع اھل العلم علی ان اخر الصحابۃ موتا فی جمیع الامصار ابوالطفیل عامر بن واثلۃ الجہنی وکان موتہ سنۃ اثنتین ومائۃ بمکۃ انتہی اور علامہ محمد طاہر مجمع البحار صفحہ 514 جلد 2 میں لکھتے ہیں: وقد[2] اتفقوا علی ان اخر من مات فی جمیع الارض من الصحابۃ ابوالطفیل عامر بن واثلۃ سنۃ مائۃ واثنین بمکۃ وقد ثبت انہ قال قبل موتہ بشھرا ونحوہ فان علی رأس مائم سنۃ لا یبغی علی وجہ الارض فانقطع المقالقال وقد بسطت القول فی المعمر ین فی تذکرۃ الموضوعات فطالعہ ینفعک فانہ کتاب نفیس تلقتہ علماء الحرمین بالمقبول انتہی۔ واللہ تعالیٰ اعلم و علمہ اتم ۔کتبہ محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفا اللہ عنہ۔ (سید محمدنذیر حسین)
[1] ان کے دعویٰ کی تردید کے لیے علماء کا اجماع کافی ہے کہ صحابہ میں آخری صحابی ابوطفیل عامر بن واثلہ جہنی 102ھ میں فوت ہوئے۔
[2] اس پراتفاق ہے کہ تمام روئے زمین پر آخری صحابی جوفوت ہوئے وہ ابولطفیل عامر بن واثلہ ہیںجو 102ھ میں مکہ میں فوت ہوئے اور یہ بھی ثابت ہے کہ انہوں نے اپنی موت سے ایک مہینہ پہلے یہ حدیث سنائی تھی کہ آج سے سو سال بعد روئے زمین پر آج کاکوئی انسان زندہ نہ رہے گا ، اس حدیث سے ساری بحث ہی ختم ہوگئی اور میں نے معمرین کے متعلق موضوعات کے تذکرہ میں بڑے بسط سے کلام کیا ہے۔ اس کامطالعہ کرو وہ بڑی نفیس کتاب ہے ، علمائے حرمین شریفین نے اس کو قبول کیا ہے۔