فرماتے ہیں علمائے دین احادیث مذکورہ ذیل کے بارہ میں کہ یہ صحیح ہیں یا ضعیف یا موضوع اور ان میں سے نمبر 1 و نمبر 4 کو حدیث قدسی کہنا کیسا ہے و نیز امامشوکانی کا سماع مزامیر کو جائز کہنا کیسا ہے اورمرزا غلام احمد کا مسیح موعود ہونے کا دعوے کرنا کیسا ہے۔ وہ حدیثیں یہ ہیں:
(1) لولاک لما خلقت الافلاک (2) من زار العلماء فکانما زار فی ومن صافح العلماء فکانما صانعنی ومن جالس العلماء فکانما جالسنی ومن جالسنی فی الدنیا اجلس یوم القیمۃ (3) علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل (4) انہ کان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول اللہم احینی مسکینا و امتنی مسکینا و احشرنی فی زمرۃ المساکین (5) رجب شہر اللہ و شعبان شہری و رمضان شہر امتی۔ بینوا توجروا۔
حدیث نمبر 4 کے باقی سب حدیثیں موضوع ہیں اور حدیث موضوع کو موضوع جان کر بیان حرام ہے اور داخل وعید ہے۔ امام نووی شرح مسلم میں لکھتے ہیں، یحرم[1] روایۃ الحدیث الموضوع علی من عرف کونہ موضوعا او غلب علی ظنہ وضعہ فمن روی حدیثا علم وضعہ او ظن وضعہ فہو مندرج فی الوعید ہاں حدیث نمبر1 کی نسبت ملا علی قاری اپنے موضوعات میں لکھتے ہیں: قال[2] الصنعانی انہ موضوع کذا فی الخلاصۃ لکن معناہ صحیح نقدروی الدیلمی عن ابن عباس مرفوعا اتانی جبرئیل فقال یا محمد لولاک ما خلقت الجنۃ ولولاک ما خلقت النار و نیز حدیث نمبر 3 کی نسبت لکھتے ہیں کہ علامہ سیوطی نے اس میں سکوت کیاہے اور بعد ثبوت وضع حدیث نمبر 1 کے اس کو حدیث قدسی کہنا محض خطا ہے، و نیز حدیث نمبر 4 یہ بھی قدسی نہیں ہے۔ اس لیے کہ عبارت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود دال ہے اس پرکہ یہ قول اللہ عزوجل کا نہیں کیونکہ حدیث قدسی اس حدیث کو کہتے ہیں جو بواسطہ جبرئیل یابلاواسطہ آنحضرتﷺ کو اللہ تعالیٰ سے پہنچی ہو، اسی وجہ سے جو حدیث قدسی ہوتی ہے ، عبارت اس کی یوں ہوتی ہے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال اللہ عزوجل۔
امام شوکانی کا سماع مزامیر کو جائز کہنا بجا ہے مگر وہی جس کو شارع نےمباح کہا ہے، جیسا کہ نیل الاوطار جلد سادس باب الدف واللہونی النکاح میں مذکور ہے اور حد مباح سے جوباہر ہے، ہرگز جائز نہیں، بلکہ اس پر وعید ہے ، چنانچہ نیل الاوطار جلد سابع باب ماجاء فی آلۃ اللہو میں مذکور ہے ،ابن ماجہ کی حدیث ہے، لیشر[3] بن ناس من امتی الخمر یسمونہا بغیر اسمہا یعزف علی رؤسہم بالمعازف والمغنیات یخسف اللہ یہم الارض و یجعل منہم القردۃ والخنازیر، غرضیکہ سماع بامزامیر مجاوز حد اباحت ہے جس کے عدم جواز میں صحیح حدیثیں مروی ہیں، ہاں یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے جماعت صوفیہ اباحت مطلقہ کے قائل ہیں اور امام شوکانی بھی انہیں میں سے ہیں، حالانکہ جس حدیث سے اباحت ثابت کی جاتی ہے اس میں حضرت عائشہؓ کا قول ولیستا بمغنیتین ثبوت اباحت کی نفی کرتا ہے بخاری شریف پارہ 4 باب سنۃ العیدین میں ہے عن[4] عائشۃ قالت دخل ابوبکر وعندی جاریتان من جواریالانارتغنیان بما تفاولت الانصار یوم بعاث ولیستا بمغنیتین و نیز بہت سےعلماء نے حرام لکھا ہے۔ اور مرزا غلام احمد کا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ سراسر غلط ہے اور محض باطل ہے ،وہ مسیح موعود نہیں ہے۔
حدیث نمبر 4 کو ابن جوزی نے موضوع کہا ہے مگر حق یہ ہے کہ یہ حدیث موضوع نہیں ہے، حاکم نے مستدرک میں اس کو صحیح کہا ہے اور حافظ ذہبی نے تلخیص المستدرک میں حاکم کی تصحیح کو برقرار رکھا ہے ، کما فی الفوائد للعلامۃ الشوکانی حافظ ابن حجر تلخیص الجیر صفحہ 275 میں لکھتے ہیں،’’اے اللہ مجھ کو مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ‘‘ الحدیث، اس کو ترمذی نے انس سے روایت کیا ہے اور اس کی سند ضعیف ہے اورابن ماجہ نےابوسعید سے روایت کیا ہے اور اس کی سند بھی ضعیف ہے ، مستدرک حاکم میں اس کے اور بھی طرق ہیں اوربیہقی نے اس کو عبادۃ بن صامت سے روایت کیا ہے اور ابن جوزی نے زیادتی کی جو اس کو موضوع لکھ دیا۔
مجیب نے مسئلہ غنا و سماع میں اجمال سے کام لیا ہے و نیز علامہ شوکانی کو اباحت مطلقہ کے قائلین سے شما رکیا ہے، حالانکہ علامہ ممدوح اباحت مطلقہ کے ہرگز قائل نہیں ہیں علامہ ممدوح نے اس مسئلہ پر نیل الواطار میں دو مقام میں بحث کی ہے ، دونوں مقام سے ان کی عبارت مع ترجمہ نقل کی جاتی ہے تاکہ اس مسئلہ میں جو ان کی تحقیق ہے وہ ظاہر ہو اور فی الجملہ اس مسئلہ کی توضیح بھی ہو، نیل الاوطار صفحہ 106 جلد 6 باب الدف واللہو میں لکھتے ہیں، وفی ذلک رای فی حدیث فصل مابین الحلال والحرام الدف والصوف فی النکاح دلیل عن انہ یجوز فی النکاح ضرب الادفاف ورفع الاصوات بشئ من الکلام نحو اتینا کم اتیناکم و نحوہ لا بالا غانی المہیجۃ للشرور المشتملۃ عن وصف الجمال والفجور و معاقرۃ الخمور فان ذلک یحرم فی النکاح کما یحرمہ فی غیرہ وکذلک سائر الملاھی المحرمۃ۔ یعنی اس حدیث میں کہ حلال نکاح اور حرام نکاح میں دف اور صوت کا فرق ہے ، دلیل ہے اس بات کی کہ جائز ہے نکاح میں دف بجانا اور آواز بلند کرنا ایسے کلام کے ساتھ جو اتیناکم اتینا کم کے مثل ہو نہ ایسا گیت گانا جو بُرائیوں کو ہیجان میں لانے والا ہو یعنی جو بیان حسن و جمال اور فجور و شراب نوشی پر مشتمل ہو اس واسطے کہ ایسا گیت نکاح میں بھی حرام ہے اور غیر نکاح میں بھی اور اسی طرح تمام ملا ہی محرمہ نکاح میں بھی حرام ہیں اور غیر نکاح میں بھی حرام ہیں۔
اور نیل الاوطار جلد سابع صفحہ 315 میں لکھتے ہیں، قد اختلاف العلماء فی الغناء مع الۃ من الات الملاھی و بدونہا فذھب الجمہور الی التحریم مستدلین بما سلف و ذھب اھل المدینۃ ومن وافقھم من علماء الظاھر و جماعۃ من الصوفیۃ الی الترخیص فی السماع ولو مع العودو الیراع یعنی غناء کی حلت و حرمت میں علماء کا اختلاف ہے ،آلات ملا ہی میں سے کسی آلہ کے ساتھ ہو یا بدوں اس کے ہو،جمہور علماء کے نزدیک حرام ہے اور ان کی دلیل وہ احادیث و روایات ہیں جو پہلے مذکور ہوچکیں اوراہل مدینہ اور بعض علمائے ظاہر کے نزدیک اور صوفیہ کی ایک جماعت کے نزدیک جائز ہے اگرچہ عود اور یراع کے ساتھ ہو۔
پھر دلائل طرفین کے مع بالہاد ما علیہا بیان کرکے آخر میں لکھتے ہیں:
’’یعنی جب فریقین کے دلائل کو مع مالہاد ما علیہا ہم تحریرکرچکے تو اب ناظرین پرمخفی نہیں ہے کہ محل نزاع دائرہ حرام سے خارج ہوتو ہو مگر دائرہ اشتباہ سے خارج نہیں ہوسکتا اور مؤمنین کی شان یہ ہے کہ شبہات کے پاس ٹھہر نہیں جاتے جیسا کہ حدیث صحیح میں اس کی تصریح آئی ہے اور جو شخص شبہات کوترک کرتا ہے وہ اپنی آبرو اور دین کو پاک کرتا ہے اور جو شخص چراگاہ کے گرد گھومتا ہے اس کا اس میں واقع ہوجانا کچھ بعد نہیں ہے، بالخصوص جب کہ غناء مشتمل ہو، ذکر قدوقامت اور خدوخال اور بیان حسن و جمال اور ہجر ووصال وغیرہ پر اس واسطے کہ ایسے غنا اورراگ کا سننے والا بلا اور مصیبت سے خالی نہیں ہوسکتا، اگرچہ نہایت درجہ کا دیندار ہو اور دین میں نہایت سخت ہو اور اس شیطانی وسیلہ کے کتنے قتیل ہیں، جن کا خون بدرور انگان ہے اور کتنے قیدی ہیں جو اس کے عشق و شیفتگی میں گرفات و مقید ہیں، اللہ تعالیٰ سے ہم میانہ روی اور ثابت قدمی کا سوال کرتے ہیں اور اس مسئلہ کی بحث کو پورے طور پر جو شخص دیکھنا چاہے اس کو ہمارا رسالہ موسومہ ابطال دعوے الاجماع علے تحریم مطلق السماع ضرور دیکھنا چاہیے۔‘‘
نیل کی ان دونوں عبارتوں سے صاف معلوم ہواکہ علامہ شوکانی جماعت صوفیہ کی طرح اباحت مطلقہ کے قائل نہیں ہیں،واللہ تعالیٰ اعلم۔
کتبہ محمد عبدالرحمن المبارکفوری عفا اللہ عنہ (سید محمد نذیر حسین)
[1] حدیث موضوع کی روایت کرنا اس آدمی پرحرام ہے جس کو اس کے موضوع ہونے کا علم ہونا یا غالب ظن اس کے موضوع ہونے کا ہو اور جو ایسی حدیث جانتے ہوئے روایت کرے جو موضوع یا بظن غالب موضوع ہو تو وعید میں شامل ہے۔
[2] صنعانی نے کہا یہ حدیث موضوع ہے، لیکن اس کامعنی صحیح ہے، ابن عباس نےمرفوعا روایت کیا ہے کہ جبرئیل نےمیرے پاس آکر بیان کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’ اے محمد(ﷺ) اگر تو نہ ہوتا تو میں جنت اور دوزخ کو پیدانہ کرتا۔‘‘
[3] میری امت میں سے کچھ لوگ شراب پئیں گے اور اس کا نام کوئی اور رکھ لیں گے اور ان کی مجالس میں باجے اور راگ رنگ ہوگا، اللہ بعض کو ان میں سے زمین میں غرق کردے گا اور بعض کو بندر اور خنزیر بنا ڈالے گا۔
[4] حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میرے پاس ابوبکرؓ آئے، اس وقت انصار کی دو چھوکریاں میرے پاس وہ شعر گارہی تھیں جو انصار نے جنگ ریعاث میں کہے تھے اور وہ پیشہ ور گانے والیاں نہ تھیں۔