کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص کہتا ہے کہ صحاح ستہ میں پچاس حدیثیں موضوع ہیں، آیا یہ قول صحیح ہے یا غلط، بینوا توجروا
جو شخص یہ کہتا ہے کہ صحاح ستہ میں پچاس حدیثیں موضوع ہیں۔ اس کا یہ قول سراسر غلط ہے اور وہ شخص محض جاہل و ناواقف ہے، صحیح بخاری و صحیح مسلم میں تمام احادیث مرفوعہ مسندہ صحیح ہیں، ان میں کسی حدیث کا موضوع ہونا کیا معنی کوئی حدیث ضعیف بھی نہیں ہے اور ان احادیث مرفوعہ مسندہ کے علاوہ اور جتنی روایات تعلیقات وغیرہا ہیں ان میں بھی کوئی روایت موضوع نہیں ہے۔ رہیں سنن اربعہ سو جامع ترمذی اور ابوداؤد نسائی میں بھی کوئی حدیث موضوع نہیں ہے۔ ہاں ابن ماجہ میں صرف ایک حدیث موضوع بتائی جاتی ہے جو ابن ماجہ کے شہرقزوین کی فضیلت میں آئی ہے ، علامہ شوکانی فوائد المجموعہ کے صفحہ 150 میں لکھتے ہیں:
’’تمہارے لیے دنیا فتح ہوتی جائے گی، ایک شہر فتح ہوگا، جس کا نام قزوین ہوگا جو اس میں چالیس دن پہرہ دے گا اس کے لیے جنت میں سونے کے دو ستون ہوں گے، ابن جوزی نے اس کو موضوع کہا ہے اور شاید یہی وہ حدیث ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ سنن ابن ماجہ میں ایک موضوع حدیث ہے۔‘‘ مگر حافظ سیوطی اپنی تعقبات میں لکھتے ہیں کہ ابن ماجہ کی اس حدیث کو موضوعات کے سلک میں درج کرنا نہیں چاہیے۔ اس کو ابن ماجہ نے بیان کیا ہے ، مزی نے تہذیب میں کہا ہے ۔ یہ حدیث منکر ہے ، صرف داؤد سے مروی ہے کہ اور منکر ضعیف کی ایک قسم ہے اور حدیث ضعیف فضائل میں مقبول ہے اور اس کو موضوع نہیں کہنا چاہیے۔ کتبہ عبدالرحمٰن مبارکفوری عفا اللہ عنہ (سید محمد نذیر حسین)