کیا فرماتے ہین علمائے دین اس مسئلہ میں کہ رسم مروج تیجا و دسواں و بیسواں و چالیسواں و چھ ماہی و برسی کہ اہل اسلام میں جاری ہے، عندالشرع جائس ہے یا ناجائز ۔ بینوا توجروا
در صورت مرقومہ رسومات مذکورہ مکروہ و بدعت ہیں کیونکہ زمانہ آنحضرتﷺ و صحابہ ؓ و تابعین و مجتہدین میں ان امور کی کچھ اصل و سند نہیں پائی جاتی۔ لہٰذا علمائے رحمۃ اللہ علیہم نے ان رسومات کو بدعت ممنوع اور قبیحہ سے شمار کیا ہے۔ یکرہ[1] اتخاذ الطعام فی الیوم الاول و الثالث و بمد الاسبوع و نقل الطعام الی القبر فی المواسم و اتخاذ الدعوۃ لقرأۃ القرآن و جمع الصلحاء والفقراء للختم او لقرأۃ سورۃ الانعام اواللاخلاص انتہہی ما فی البزازیہ۔
اور فتاوے جامع الروایات میں شرح منہاج نووی سے نقل کرتا ہے۔ فی[2] شرح المنہاج للنووی والاجتماع علی المقبرۃ فی الیوم الثالث و تقسیم الورد والعود والطعام فی الایام المخصوصۃ کالثالث والخامس والتاسع والعاشر والعشرین والاربعین والشر السادس والسنۃ بدعۃ ممنوعۃ،اور شیخ علی المتقی استاد شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنے رسالہ رد بدعت میں فرماتے ہیں۔ الاول [3]الاجتماع للقراءۃ بالقرآن علی المیت بالتخصیص علی المقبرۃ والمسجد اوا لبیت بدعۃ مذمومۃ لانہ لم ینقل فی الصحابۃ رضی اللہ عنہم شیئا انتہی۔
وصاحب قاموس مجد الدین فیروز آبادی نے بیچ سفر السعادت کے لکھا ہے کہ ’’عادت [4]نہ بود کہ برائے میت جمع شوند و قرآن خوانند و ختمات کنند نہبرگور دنہ غیر آن مکان و این بدعت است و مکروہ اور نصاب الاحتساب وغیرہ میں ان امو رمذکورہ کے بدعت اور کراہت میں بہت کچھ لکھا ہے پس تعین اوقات مخصوصہ میں ایصال ثواب کرنا بدعت اور مکروہ ہے اور بعیر قیدون مقررہ کے ثواب میت کو پہنچانا درست و جائز ہے جیسا کہ قرون ثلاثہ مشہور لہا بالخیر میں رواج تھا اور رسومات مروجہ اس دریار کے بدعت اور کراہت تحریمی سے خالی نہیں، جیسا کہ علمائے متبعین شرع شریف پر پوشیدہ نہیں، واللہ اعلم بالصواب ۔ حررہ سید محمد نذیر حسین عفی عنہ (محمد قطب الدین)
[1] پہلے اور ساتویں دن کھانا پکانا اور اس کو قبر پر لے جانا قرآن ختم کرانے کے لیےدعوت کرنا اور علماء و صلحاء و فقراء کو قرآن خوانی کے لیے جمع کرنا مکروہ ہے۔ (بزازیہ)
[2] تیسرے روز قبر پر اکٹھا ہونا اور پھول عود کھانے کا مخصوص دنوں میں تقسیم کرنا مثلاً تیسرے ، پانچویں، نویں، دسویں، بیسویں، چالیسویں ، چھٹے مہینے اور سال بعد یہ سب بدعت اور منع ہیں۔
[3] میت کے لیے قرآن پڑھنے کے لیے جمع ہونا خصوصاَ قبرستان میں یا مسجدمیں یا اس کے گھر تو یہ بدترین قسم کی بدعتیں ہیں کیونکہ صحابہ کرام سے ان میں سے کوئی چیز بھی ثابت نہیں ہے۔
[4] یہ دستور نہیں تھا کہ میت کے لیے جمع ہوکر قرآن پڑھیں، ختم کرائیں، نہ قبر پرنہ کسی اور جگہ پر یہ بدعت ہے اور مکروہ ہے۔