سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(55) ہمراہ میت کے جات ہیں ان کے کھانے کا بھی انتظام کیا جاتا ہے
  • 5562
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 886

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں  کہ ایک  قوم مسلمانوں میں  یہ دستور ہے کہ جب کوئی مرد یا عورت مرجائے اور کفن وغیرہ کا فکر کیا جائے تو ساتھ ہی اس کے جو برادری کے آدمی دفن کرانے کو ہمراہ میت کے جات ہیں ان کے کھانے کا بھی انتظام کیا جاتا ہے اور برادی کے آدمی سب مل کر کھاتے ہیں ،اس کھانے کانام حاضری رکھا ہے، چاہے اس  کو مقدور ہو یا نہ،ایسا ہی دسواں اور بیسواں اور اس سے زیادہ چالیسواں کہ کل برادری کو کھاناکھلانا پڑتا ہے اور اگر کسی شخص کے پاس کچھ نہ ہو اور برادی کو نہ کھلائے تو برادی کے لوگ زبردستی سے کھانا لیتے ہیں بلکہ مجبور ہرکو سودی روپیہ لے کر برادی کو کھانا کھلانا پڑتا ہے ،ایسا کھانا شرعاً جائز ہے یامکروہ یا حرام ہے۔بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں  اہل موتے کے گھر جو برادری کے لوگ اس دن کھانا کھاتے ہیں وہ بدعت ہے شریعت میں  کہیں ثابت نہیں، ان کو چاہیے کہ اس سے توبہ کریں بلکہ یہ لوگ خود کھانا پکا کر اس دن اہل موتے کے گھر روانہ کریں کیونکہ ترمذی شریف میں  عبداللہ بن جعفر سے روایت ہے کہ جب حضرت ﷺ کو حضرت جعفر کے شہیدہونے کی خبر پہنچی تو لوگوں سے آپ نے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے واسطے  کھانا تیار کرو کہ ان کو اس مصیبت میں  کھانا پکانے کی فرصت نہیں اور مشکوٰۃ شریف میں  بھی  یہ حدیث موجود ہے ، لفظوں میں  کچھ فرق ہے ،اسی طرح دسواں، بیسواں،چالیسواں کہ اس کی بھی شریعت میں  کچھ اصل نہیں ہے ، مطلق ثواب پہنچانا میت کے لیے بلا قید ایام مذکورہ کے درست ہے اور شریعت سے ثابت ہے کہ میت کو سعی احیا سے دو طرح پر نفع پہنچتا ہے اوّل یہ کہ خود وہ اپنی حیات میں  کوئی سبب اپنے ثواب کا مثل خیرات جاریہ مقرر کرجائے اور احیار اس کو جاری رکھیں، دوسرے یہ کہ مسلمان اس کو دعائے مغفرت و صدقہ و حج وغیرہ کے ساتھ یاد کریں۔ اتفق اھل السنۃ ان الاموت ینتفعون من الاحیاء بامرین احدھما ما تسبب الیہ المیت فی حیاتہ والثانی دعاء المسلمین و استغفارھم والصدقۃ والحج کذا فی شرح الفقہ الاکبر ملا علی القاری و اللہ اعلم ۔ حررہ حبیب احمد دھلوی۔                             (سید محمد نذیر حسین)

 


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے