کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک قوم مسلمانوں میں یہ دستور ہے کہ جب کوئی مرد یا عورت مرجائے اور کفن وغیرہ کا فکر کیا جائے تو ساتھ ہی اس کے جو برادری کے آدمی دفن کرانے کو ہمراہ میت کے جات ہیں ان کے کھانے کا بھی انتظام کیا جاتا ہے اور برادی کے آدمی سب مل کر کھاتے ہیں ،اس کھانے کانام حاضری رکھا ہے، چاہے اس کو مقدور ہو یا نہ،ایسا ہی دسواں اور بیسواں اور اس سے زیادہ چالیسواں کہ کل برادری کو کھاناکھلانا پڑتا ہے اور اگر کسی شخص کے پاس کچھ نہ ہو اور برادی کو نہ کھلائے تو برادی کے لوگ زبردستی سے کھانا لیتے ہیں بلکہ مجبور ہرکو سودی روپیہ لے کر برادی کو کھانا کھلانا پڑتا ہے ،ایسا کھانا شرعاً جائز ہے یامکروہ یا حرام ہے۔بینوا توجروا
صورت مسئولہ میں اہل موتے کے گھر جو برادری کے لوگ اس دن کھانا کھاتے ہیں وہ بدعت ہے شریعت میں کہیں ثابت نہیں، ان کو چاہیے کہ اس سے توبہ کریں بلکہ یہ لوگ خود کھانا پکا کر اس دن اہل موتے کے گھر روانہ کریں کیونکہ ترمذی شریف میں عبداللہ بن جعفر سے روایت ہے کہ جب حضرت ﷺ کو حضرت جعفر کے شہیدہونے کی خبر پہنچی تو لوگوں سے آپ نے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے واسطے کھانا تیار کرو کہ ان کو اس مصیبت میں کھانا پکانے کی فرصت نہیں اور مشکوٰۃ شریف میں بھی یہ حدیث موجود ہے ، لفظوں میں کچھ فرق ہے ،اسی طرح دسواں، بیسواں،چالیسواں کہ اس کی بھی شریعت میں کچھ اصل نہیں ہے ، مطلق ثواب پہنچانا میت کے لیے بلا قید ایام مذکورہ کے درست ہے اور شریعت سے ثابت ہے کہ میت کو سعی احیا سے دو طرح پر نفع پہنچتا ہے اوّل یہ کہ خود وہ اپنی حیات میں کوئی سبب اپنے ثواب کا مثل خیرات جاریہ مقرر کرجائے اور احیار اس کو جاری رکھیں، دوسرے یہ کہ مسلمان اس کو دعائے مغفرت و صدقہ و حج وغیرہ کے ساتھ یاد کریں۔ اتفق اھل السنۃ ان الاموت ینتفعون من الاحیاء بامرین احدھما ما تسبب الیہ المیت فی حیاتہ والثانی دعاء المسلمین و استغفارھم والصدقۃ والحج کذا فی شرح الفقہ الاکبر ملا علی القاری و اللہ اعلم ۔ حررہ حبیب احمد دھلوی۔ (سید محمد نذیر حسین)