سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(54) ماتم و تعزیت پرسی کرنے والوں کو اہل میت کے گھر کا کھانا

  • 5561
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1564

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں  کہ ماتم و تعزیت پرسی کرنے والوں کو اہل میت کے گھر کا کھانا درست ہے یا نہیں اور دوسرے ، تیسرے، چوتھے دن جو مرد اور عورتیں رسم کے طور پر جمع ہوتی ہیں اس میں  کھانا کھانااور جمع ہونا درست ہے یا نہیں۔ بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

درصورت مرقومہ ارباب شریعت غرا پر مخفی نہیں کہ طریقہ مسنون یہ ہے کہ تعزیت اور ماتم پرسی کرنے والے جو نزدیک اور ایک بستی کے ہوں ،ان کو کھانا کھانا اہل میت کے گھر کا نہ چاہیے کیونکہ  یہ امر جاہلیت سے ہے، بلکہ قریب اور پاس والوں کو چاہیے کہ تعزیت اہل میت کی کرکے اپنے اپنے گھر چلے جائیں نہ یہ کہ اہل میت کے گھر دھرنا دیں ،کھاناکھانے کے لیےاور جو لوگ دور دراز مسافت بعیدہ سے تعزیت کے لیے آئیں، ان کو کھاناکھانا اہل میت کے گھر کا مضائقہ نہیں، اس لیے کہ ان کو اپنے گھر پہنچنا دشوار ہے اور یہ رسم  نامشروع جو مروج ہے کہ دوسرے دن یا تیسرے دن یا چھوتے دن جو رجال و نسا ء کی برادری وغیرہ کے اہل میت کے گھر جمع ہوتے ہیں اور اہل میت چار و ناچار اگر ذی مقدود نہ ہوں روپیہ سودی یا قرض دام کرکے کھانا پکوا کر حاضریں کو کھلاتے ہیں، سو یہ امو رجاہلیت سے ہے، اس کو سارے علماء قرناً بعد قرن منع کرتے آئے ہیں، اور نامشروع جانتے ہیں اور جس مقام میں  عورتیں رونے پیٹنے کے لیے جمع ہوتی ہیں اوراہل میت ان کے واسطے کھاناپکواتے ہیں اورکھلاتے ہیں ان کو زیادہ موجب معصیت کا ہے کہ اعانت اوپر نوحہ و معصیت کے کرتے ےہیں اور ضیافت شروع شریف میں  بروقت شرور و حزن و ماتم و معصیت کے  کہ ایسے وقت میں  ضیافت کرنی بدعات مستقبحہ سے ہے۔ اتخاذ[1] الطعام من اہل المیت بدعۃ مستقبحۃ لانہ شرع  فی السرور فی الشرور کذا فی فتح القدیر و البحر والطحطاوی وغیرہ من کتب الفقہ۔

اسی نظر سے وصیت میت کو جو ایسے کھانے کی کرجائے باطل ہے، تنویر الابصار اور درمختار میں  لکھا ہے۔ ’’اگر مرنے والا وصیت  کرے کہ موت کے بعد تین دن تک کھانا پکانا تو یہ  وصیت باطل ہے، ابوبکر بلخی اور ابوجعفر نے کہا اگر یہ وصیت کرے کہ تعزیت کے لیے آنے والوں کوکھانا کھلانا، تو یہ وصیت ثلث سے پوری کی جائے گی اور یہ کھانا ان آدمیوں کے لیےجائز ہوگا جن کو زیادہ دیرٹھہرنا ہو یا جن کی مسافت دو رہو، زیادہ دیرٹھہرنے کامطلب یہ ہے کہ وہ رات کو واپس نہ جائیں اور ہم نے جو یہ کہا کہ ماتم اور افسوس کے تین دنوں میں  کھانا پکانا منع ہے تو یہ اس لیے  ہے ے کہ وہ افسوس کے دن ہیں اور ضیافتیں تو خوشی کے وقت ہوتی ہیں ، غمی میں  نہیں ہوتیں اور محتاجوں کے لیے کھاناپکائے تو اچھا ہے،غرائب میں  ہے کہ وہ کھانا جو میت کےگھر والے پکارتے ہیں اور عورتیں اور مرد اس پرجمع ہوتے ہیں یہ اس قوم کا فعل ہے جس کا دین میں  کوئی حصہ نہیں ہے ۔ امام احمد نے کہا یہ جاہلیت کی رسم ہے جریر بن عبداللہ نے کہا کہ میت کے گھراکٹھا ہونا اور کھانا پکانا نوحہ کی ایک قسم ہے۔‘‘                                               (سید محمدنذیرحسین)



[1]  میت کے گھر والوں کی طرف سے کھانے کا بندوبست ہونا بہت بُری بدعت ہے کیونکہ دعوت خوشی کے وقت ہوئی ہے نہ کہ مصیبت کے وقت فتح القدیر، بحرطحطاوی وغیرہ کتب فقہ میں  ایسا ہی لکھا ہے۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ