سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(51) ماہ محرم کی دسویں تاریخ کو کھانے میں اہل و عیال..الخ

  • 5558
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1370

سوال

(51) ماہ محرم کی دسویں تاریخ کو کھانے میں اہل و عیال..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ماہ محرم کی دسویں تاریخ کو کھانے میں  اہل و عیال پر وسعت کرے، آیا اس کا ثبوت کوئی شرعی ہے یا نہیں۔ بینواتوجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

محرم کی دسویں تاریخ کو کھانے میں  وسعت کرنےکا ثبوت اس حدیث سے  ہوتا ہے ۔ عن ابن مسعود قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من وسع علی عیالہ فی النفقۃ یوم عاشوراء وسع اللہ علیہ  سائر سنتہ قال سفیان انا قد جربناہ فوجدنا کذلک رواہ رزین و روی البیہقی فی شعب الایمان عنہ و عن ابی ہریرۃ وابی سعید و جابر و ضعفہ (مشکوٰۃ باب فضل الصدقۃ) یعنی ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص عاشوراء کے روز اپنے عیال پر نفقہ  میں وسعت کرے ۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے رزق میں  اس سال کے باقی تمام دنوں میں  وسعت کرے گا۔ سفیان نےکہا کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا ہے، پس ایسا ہی پایا ہے روایت کیا، اس حدیث کو رزین نے اور روایت کیا اس کو بیہقی نے ابن مسعودؓ سے اور ابوہریرہؓ اور ابوسعیدؓ اور جابر سے اور ضعیف کہا اس  حدیث کو۔

اس حدیث کو اگرچہ بعض محدثین نےضعیف اورناقابل احتجاج اور بعض نے موضوع بتایا ہے مگر حق بات یہ ہے کہ یہ حدیث موضوع نہیں ہے اور کثرت طرق کی وجہ سے حسن و قابل احتجاج ہے۔ حافظ سیوطی تعقبات علی ابن الجوزی صفحہ 49 میں  لکھتے ہیں:

 ’’اس حدیث کو بیہقی نے شعب الایمان میں  ابوسعید خدری ؓ، ابوہریرہ ؓاور جابر ؓسے روایت کیا ہے ، گویہ تمام سندیں ضعیف ہیں لیکن ایک دوسرے سے مل کر قوی ہوجاتی ہیں، حافظ ابوالفضل نے کہا ہے کہ ابوہریرہؓ کی حدیث کئی سندوں سے مروی ہے ، ان میں  سے بعض کی تصحیح ابوالفضل بن ناصر نے کی ہے اور سلیمان کو  ابن جوزی نے مجہول کیا ہے ،حالانکہ ابن حبان نے اس کو ثقات میں  بیان کیا ہے ، بہرحال اس حدیث کو دوسرے طرق سمیت محدثین نے قابل احتجاج سمجھا ہے گو یہ ضعیف ہے لیکن اس پر کسی عقیدہ کی بنیادنہیں ہے۔ امام بیہقی نے ایک رسالے میں  اس کے تمام طرق جمع کئے ہیں۔ واللہ اعلم۔                                            (سید محمدنذیر حسین)


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے