کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر مسلمان کوئی میلہ کریں، جس کی مذہب میں کوئی اصل نہیں جیسے تعزیہ داری اور کافرانہ اس لحاظ سے کہ میلہ کی تخریب ہو، بلکہ اس لحاظ سےکہ مسلمانوں کو بحیثیت مذہب ، ہزیمت ہو مزاحم ہوں تو ایسی صورت میں میلہ والے مسلمانوں کی شرکت دوسرے مسلمانوں کوجائز ہے یا نہیں۔ بینوا توجروا
درصورت مرقومہ ارباب فطانت و دیانت پرمخفی نہیں کہ مسلمانوں کو بحیثیت مذہب ہزیمت جب ہو کہ یہ میلہ تعزیہ داری کا مذہب و ملت یا ادنےٰ شعائر اسلام میں بھی داخل ہوتا، حالانکہ داخل نہیں اور جب یہ میلہ مذکورہ داخل ہی نہیں ہوا بلکہ یہ میلا بعض وجہ سے میلہ فسقیہ ہے اور بعض وجو ہ سے میلہ شرکیہ ہے تو اس صورت میں مسلمانوں کو من حیث مذہب دینی وملت یقینی کیونکر ہزیمت متصور ہوگی، یہ خیال خام بعض بلا یان نافرجام ہے، وقول رب العالمین یوحی[1] بعضہم الی بعض زخرف القول غرورا الایۃ ان یتبحون الا الظلن وان ھم الایخرصون ، مناسب حال و مقال ملایان بدخصال کے ہے ، پس فزرہم وما یفترون ( ان کو اور ان کے بہتانوں کو چھوڑ دو) مشعر چال ڈھال ان کی کا ہے ، تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ میلہ تعزیہ داری کا میلہ فسقیہ ہے باعتبار اجتماع فساق تماش بین کے اور یہ میلہ باعتبار بنانے والے اور تعظیم کرنے والے اور تقرب لغیر اللہ چاہنے والے کے میلہ شرکیہ ہے، پس صورت اولیٰ میں تماشہ دیکھنا راون کے میلہ کا اور تماشہ دیکھنا تعزیہ کے میلہ کا دونوں برابر ہیں، زور و کذب و مالا ینبغی اور غیر مشروع ہو نےمیں بموجب اس آیت کریمہ فلا [2]تقعد بعد الذکریٰ مع القوم الظلمین کے نیز بدلیل آیت سورۃ فرقان کے والذین[3] لا یشھدون الزور ہرچند یہ آیت محتمل احتملات کثیرہ کو ہے ، لیکن احتمال اقوی ہی ہے یحتمل[4] حضور کا وضع یجری فیہ مالا ینبغی و یدخل فیہ اعیاد المشرکین و مجامع الفساق لان من خالط اھل الشر و نظر الی افعالہمو حضر مجامعہم فقد شارکہم فی تلک المعصیۃ انتہی ما فی التفسیر الکبیر والفصول العمادیۃ اور مدد دینا بنا بر تکثیر سواد اور اشاعت و رونق تعزیہ کی زیادہ تر سخت گناہ ہے، حسب منطوق لازم الوثوق کے تعاونوا[5] علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان، و نیز مطابق فرمودہ آنحضرت ﷺ من [6]کثر سواد قوم فھو منھم الحدیث اور صورت ثانیہ میں یہ میلہ شرکیہ بلا ریب ہے، کیونکہ یہ تعزیہ منصوبہ فی[7] مانصب وعید من دون اللہ میں داخل ہے کقولہ[8] تعالیٰ کانہم الی نصب وفی قراء ۃ بضم الحرفین شئ منصوب کعلم اور آیۃ یوفضون یسرعون کذا فی تفسیر الجلالین۔
پس تعزیہ بنانا اور ساتھ نشان توقیر و تعظیم کے چبوترہ یا کسی بلند مقام پرقائم کرنا اور رکھنا اور نذر و نیاز بتوقع حصول مطالب دنیاری و امید حاجت روائی اور فراخی روزی و طلب اولاد و جاہ و منصب کے اس پر چڑھانا اور اس کی بے ادبی میں نقصان جان و مال کااعتقاد رکھنا اور بجہت عقیدہ واجب التعظیم کے سلام اور مجرا اور سجدہ اس کوکرنا جیساکہ رسم و رواج و عرف و عادت تعزیہ پرستوں کی ہے، صریح بت پرستی ہے، مانند بت پرستی کفار مکہ مکرمہ وغیرہم کے ایام جاہلیت میں کیونکہ کفار مکہ معظمہ نے تین سو بت تقریباً گردا گرد خانہ کعبہ شریفہ کے کھڑے کررکھے تھے اورنذر و نیاز اور ذبح جانور بنا برتعظیم بتوں کی کیا کرتے تھے پس درمیان تعزیہ داران اور کفار بت پرستان مکہ مکرمہ وغیرہ کے کچھ فرق نہیں ہے ، اس لیے کہ تعزیہ دار تعزیہ سے اعتقاد جلب منفعت و دفع مضرت کا رکھتے ہیں جیسے کفار بتوں سے معتقد حصول منافع و دفع مضار کے ہیں جیسے کفار خدا تعالیٰ کو خالق ارض و سما و کل مخلوقات و مدبر امور کائنات کا جانتے ہیں ویسے ہی تعزیہ دار بھی جانتے ہیں، پھرکفار کو مشرک و کافر رہنا اور تعزیہ دار کو نہ کہنا بلا دلیل ہے۔
لقولہ تعالیٰ[9] ولئن سالتھم من خلق السموات والارض لیقولن اللہ الایۃ قل لمن الارض ومن فیہا ان کنتم تعلمون۔ سیقولون للہ قل افلا تذکرون قل من رب السموات السبع و رب العرش العظیم سیقولون للہ قل افلاتتقون قل من بیدہ ملکوت کل شئ وھو یجیر ولا یجار علیہ ان کنتم تعلمون سیقولون للہ قل فانی تسحرون۔ ھذہ الایات من سورۃ المؤمنون۔
اب اگر کوئی اعتراض کرے کہ جب کفار اللہ تعالیٰ ہی کو خالق و مالک و رازق و مدبر کل امور ، محی و ممیت جانتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو کافر اور مشرک کیوں کہا، ان کے اعمال دنیا کے کیوں ہباءً منشوراً و برباد کر ڈالے، جواب اس کا یہ ہے کہ جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت خالصاً چھوڑ دی اور عبادت غیر اللہ حجر و شجر و نشان و جھنڈا و بعض عباد اللہ کاملین کی کرنے لگے تو ظاہراً حال کفار کا عبادت غیر اللہ میں مشابہ حال اس شخص کے ہوا کہ جوماسواے اللہ کو واجب بالذات قرار دیتا ہو،اور اعتقاد رکھتا ہو ، والاکفار بھی سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو واجب بالذات اور مدبر امور حقیقۃ نہیں جانتے تھے، چنانچہ جابجا قرآن مجید اور تفاسیر مثل بیضاری وغیرہ سے صاف مستفاد ہوتا ہے اور ماہران شریعت پرمخفی نہیں۔
و تسمیۃ[10] ما یعبدہ المشرکون من دون اللہ انداداو ماز عموا انہا تساویہ فی ذاتہ و صفاتہ ولا انہا تخالفہ فی افعالہ کانہم لما ترکو اعبادتہ الی عبادتہا و سموھا الہۃ شابھت حالہم حال من یعتقد انہا ذوات واجبۃ بالذات قادرۃ علی ان تدفع عنہم باس اللہ تعالیٰ و تمنحہم مالم یرد اللہ بھم من خیر فتہکم بھم و شنع علیہم بان جعلوا للہ اندادا لمن یمتنع ان یکون لہ ندکذا فی التسیر البیضاوی تحت قولہ تعالیٰ فلا تجعلوا للہ اندداو انتم تعلمون الغرض جو معاملہ کفار اپنے بتوں کے ساتھ کرتے تھے وہی معاملہ تعزیہ دار تعزیہ سے کرتے ہیں، چنانچہ آیت کریمہ وما[11] ذبح علی النصب سودہ مائدہ وغیرہا من الایات ہمارے قول کی مصدق اور شاہد عدل ہیں، تفسیر کبیر کی عبارت کو بغور ملاحظہ فرمائیے۔
قال[12] ابن جریج النصب لیس باصنام فان الاصنام احجار مصورۃ منقوشتہ وہذا النصب احجار کانوا ینصبونہا حول الکعبۃ وکانو یذیحون عندھا للاصنام وکانوا یلطخونہا بتلک الدماء و یصبغون اللحوم علیہا فقال المسلمون یارسول اللہ کان اہل الجاہلیۃ یعظمون البیت بالدم فنحن احق ان نعظمہ وکان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ینکرہ فانسل اللہ تعالی ٰ لن ینال اللہ لحومہا ولادما ئہا و لکن ینالہ التقوی منکم وعلم ان قولہ و ما ذبح علی النصب فیہ وجہان احدھما وما ذبح علی اعتقاد تعظیم النصب والثانی وما ذبح للنصب فاللام و علی یتعاقبان قال اللہ تعالیٰ فسلام لک من اصحاب الیمین ای فسلام علیک منہم وقال وان اساتم فلہا ای فعلیہا انتہی ما فی التفسیر الکبیر وما ذبح علی النصب کانت لہم احجار منوبۃ حول البیت یذبحون علیہا و یعظمونہا بژلک و یتقربون بہ الیہا کذا فی المدارک والبیضاوی، اور معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ جو جانور ذبح کیا جائے اوپر کسی نشان اور تھان کے ۔ اور دوسری آیت یہ ہے ۔ کانہم[13] الی نصب یوفضون اعلم ان فی نصب ثلاث قرات احداھا وھی قرائ ۃ الجمہور نصب بفتح النون و النصب کل شئ نصب والمعنی کانہم الی علم لہم یستبقون والقراء ۃ الثانیۃ نصب بضم النون و سکون الصاد والمراد بالنصب الانصاب وھی الاشیاء التی تنصب فتعبد من دون اللہ کقولہ تعالیٰ وما ذبح علی النصب، تمام ہوئی عبارت تفسیر کی بیچ سورہ معارج کے کانہم حال الی نصب وھو کل ما نصب و عبد من دون اللہ کذا فی المدارک ، ساری آیت یہ ہے۔ یوم یخرجون من الاجداث سراعاً کانہم الی نصب یوفضون، جس دن نکل پڑیں قبروں سے دوڑتے ہوئے، گویا جیسے کہ نشانہ پردوڑے جاتے ہیں، کذا فی موضح القرآن اور عبارت تفسیر معالم التنزیل کی یہ ہے۔ وقرأ الاخرون نصب بفتح النون و سکون الصاد یعنون الی شئ منصوب یقال فلان نصب عینی و قال الکلبی الی علم درایۃ انتہی ما فی المعالم۔
اور مولانا شاہ عبدالعزیز علیہ الرحمۃ اپنی تفسیر عزیزی میں تحت آیت مذکورہ کے فرماتے ہیں یوم یخرجون یعنی روزے کہ خواہند برآمد تنہا برہنہ بدن و برہنہ سرو برہنہ پامن الاجداث یعنی از قبر ہاسراعاً یعنی دوندہ و شتمایان بشنیدن آواز نفخ صور حضرت اسرافیل کانہم یعنی گویا کہ ایشان بسوئے بتے کہ برائے زیارت استہ خانہ برآوردہ استادہ کردہ اند یوفضون یعنی می دوند ومی شتا بند بقصد آنکہ پیش از ہمہ زیارت او نمایند و بوسہ و ہند دست باور سانند بایں طمع کہ ہر کہ درین وقت پیش آمد انتہی ما فی التفسیر العزیز نصب نصب الشئ وضعہ وضعانا بیاکنصب الرمح و البناء والحجر کذا فی مفردات القرآن للامام الراغب۔
پس آیات و تفسیر ماسبق سے واضح ہوا کہ نصب بمعنی شے منصوب کے ہے اور شئ منصوب میں علم و نشان درایت و جھنڈا اورچھڑی اور تعزیہ داخل ہیں، بنابرتعظیم و تقرب لغیر اللہ کے لان حکم المثلین واحد والامور بمقاصد ہا میں میلہ راون و میلہ تعزیہ کا برابر ہے، کیونکہ دونوں میں تقرب لغیر اللہ پایا جاتا ہے یعنی جس طرح کفار کہ نصب سے تقرب چاہتے تھے اسی طرح تعزیہ سے تعزیہ دار ایک دوسرے سے بڑھ کرتقرب چاہتے ہیں کیونکہ کوئی دو گز کا کوئی پانچ گز کا کوئی دس گز کا اونچا ساتھ ارائیش زرق برق کے بناکر تعظیم تمام و احترام تام چبوترہ پر قائم کرکے نذر و نیاز اس پر چڑھاتے ہیں اور ساتھ ادب کے سلام و سجدہ کرےہیں، تو یہ سارے امو رمذکورہ موجب شرک جلی اور شعار مشرکین ہیں۔ کما لا یخفی علی العلماء الماھرین بالشریعۃاور طرفہ تماشا یہ کہ دونوں فرقے یعنی راون والے اور تعزیہ والے بناز وخرام و بتختر تمام مقابلہ و لڑنےمرنے پرمستعد ہیں اورہرفرقہ اپنی شان و شوکت بڑھانے پر نعرہ ھل من مبارز کا مارتا ہے نعم ماقیل۔
طرز خرام کرتی ہے سرسینکڑوں قلم ...... تلوار چل رہی ہے نئی چال ڈھال پر
القاتل[14] والمقتول کلاھما النار۔ اللہ ہادی کریم تعالیٰ شانہ سارے مسلمانوں کو ایسے عقیدہ فاسدہ اور عمل مذموم شرک کی تعزیہ داری سےمحفوظ رکھے اور دین محمدی پر توفیق رفیق عطا فرمائے اور جو لوگ خود نہیں بناتے مگر مددگار امور شرکیہ کے ہوتے ہیں، ان کو بھی اس بلائے عظیم تائید شر ک یسے توبہ نصیب کرے کہ امداد غیر مشروع سےباز آئیں اور حسب توقیع وقیع فلا [15]تقعد بعد الذکری مع القوم الظلمین کے تعزیہ دار کی صحبت سےاحتراز کرتے رہیں کہ غضب الہٰی میں گرفتار نہ ہوں عن حذیفۃ [16]قال قال رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا یقبل اللہ لصاحب البدعۃ صوما ولا صلوۃ ولا صدقۃ ولا حجا و لا عمرۃ ولا جہادا ولا صرفا ولا عدلا یخرج من الاسلام کما یخرج الشعرۃ من العجین رواہ ابن ماجہ،اور فرمایا آنحضرت ﷺ نے کہ جو کوئی احداث بدعت کرے یا حدث کو جگہ دے یا اس کی تعظیم کرے اس پر بھی لعنت خدا کی اور اس کے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ مقبول نہیں۔ من [17]احدث حدثنا او اوی محدثا فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین لا یقبل اللہ عنہ صرفا ولا عدلا رواہ الطبرانی عن ابن عباس و رواہ البزار عن ثوبان،اور فرمایا آنحضرتﷺ نے کہ جو کوئی کسی قسم کی کثرت اور بھیڑ بھاڑ اس کی بڑھاوے یا تشبہ کرے وہ اسی قوم سے ثمار کیا جائے ۔ قال[18] قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من کثر سواد قوم فہومنہم ومن تشبہ بقوم فہو منہم کما فی الشمکوۃ ای من تشبہ بالکفار فی اللباس وغیرہ او بالفساق او بالصلحاء فہو منہم کذا فی مجمع البحار۔
حاصل یہ کہ مشارکت و مظاہرت صورت سوال میں صورت حمیت جاہلیت اولیٰ کی ہے نہ اسلامی فاجتنبوا[19] الرجس من الاوثان ۔ یاایہا الذین امنوا انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون الایۃ ، فریقین یعنی راون والے اور تعزیہ والے پر حجت قاطع اور برہان ساطع ہے کیونکہ تعزیہ سازی و نشان و جھنڈا وغیرہ منجملہ انصاب عمل شیطانی بلا ارتیاب عند اولے الالباب ہے۔
دل نے جس راہ لگایا، اسی راہ چلا ..... وادی عشق میں گمراہ کو رہبر سمجھا
واللہ اعلم بالصواب۔الراقم سید محمد نذیر حسین۔
الامر[20] کذلک قال اللہ تعالیٰ ومن اضل ممن یدعوا من دون اللہ من لا یستجیب لہ الی یوم القیمۃ وھم عن دعائھم غافلون وقال اللہ تعالیٰ ولا تدع من دون اللہ ما لا ینفعک ولا یضرک فان فعلت فانک اذا من الظلمین۔ اخرج الترمذی عن ثوبان قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا تقوم الساعۃ حتی تلحق قبائل من امتی بالمشرکین و حتی تعبد قبائل من امتی الاوثان۔
اور جب تعزیہ پرست تعزیہ کے سبب ظالمین میں داخل ہوئے تو تعزیہ پرست مثل راون و کالی والوں کے ہوئے تو اب دونوں کی شرکت و اعانت مساوی الاقدام ہوئی بلکہ تعزیہ والوں کی اعانت بدتر ہے کیونکہ بہ سبب تعزیہ پرستی کے کفار اسلام پربت پرستی کا الزام دیتے ہیں اور اکثر اوقات مسلمانوں میں تعزیہ پرستی کو دیکھ کر ہدایت سے باز رہتے ہیں پس جس چیز کے سبب اسلام پر دھبہ لگے اور طریقہ ہدایت کا مسدود ہو، اس چیز کی شرکت و اعانت سراسر اسلام پر ظلم کرنا ہے اور کیوں ایسے امر قبیح کو مسلمانوں نے اختیار کیا جس کے سبب بمقابلہ کفار ہزیمت اٹھانی پڑے، پس ہر مسلمان پر فرض ہے کہ ان سب میلوں کی تخریب میں برابر کوشش کرے بلکہ میلہ تعزیہ داری کے اندر اس تخریب میں زیادہ کوشش کرے تاکہ اسلام پر الزام نہ آئے اور طریقہ ہدایت کا مسدود نہ ہو اور ہزیمت بھی نہ اٹھانی پڑے اور نیز اس میں توہین اہل بیت رضی اللہ عنہم کی لازم آتی ہے جیسا کہ ماہرین شریعت غرا پر مخفی نہیں پس پرائے شگون پر ناک کٹائی عقلمندوں کا کام نہیں ہے۔ من لہ عقل سلیم یقتدی بالمصطفی ۔ الراقم العاجز تلطف حسین۔
[1] ان میں سے بعض، بعض کی طرف جھوٹی اور ملمع کی باتیں القا کرتے ہیں، وہ صرف ظن کی پیروی کررہے ہیں اور ایک اندازہ کر رہے ہیں۔
[2] یاد آجانے کے بعد ظالم قوم کے پاس مت بیٹھو۔
[3] جو بے ہودہ چیزوں پرحاضر نہیں ہوتے۔
[4] یہ حاضر ہونا ہر اس چیز کو شامل ہے جو لائق و ٍشائستہ نہیں، اس میں مشرکوں کی عیدیں اور فاسقوں کی مجالس بھی شامل ہیں، کیونکہ جو بد لوگوں کے پاس جائے گا ان کے افعال کو دیکھے، ان کی مجلس میں حاضر ہو تو اس نے ان کے گناہ میں شرکت کی۔
[5] نیکی اور پرہیزگاری پرایک دوسرے کی مدد کرو اور زیادتی میں مدد نہ کرو۔
[6] جو آدمی کسی قوم کی تعداد بڑھائے وہ انہی میں سے ہے۔
[7] جو کھڑا کیا جائے اور اللہ کے سوائے اس کی عبادت کی جائے۔
[8] گویا وہ اپنے بتوں کی طرف دوڑتے جارہے ہں نصب بضمتین ہر وہ چیز جو کھڑی کی جائے، جیسے جھنڈا وغیرہ
[9] اگر تو ان سے پوچھےکہ آسمان اور زمین کو کس نے بنایا ہے تو کہیں گے اللہ نے الآیۃ ان سے پوچھو کہ یہ زمین اور اس کی مخلوقات کس کی ہے اگر جانتے ہو تو جواب دو، تو کہیں گے، اللہ کی، آپ کہیں کہ کیا نصیحت حاصل نہیں کرتے ان سے کہیں ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا رب کون ہے کہیں گے اللہ، کیا تم ڈرتے نہیں، کہیں ہر چیز کا اختیار کس کے قبضہ میں ہے، کون پناہ دے سکتا ہے اور اس کے برخلاف کوئی پناہ نہیں دے سکتا، اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ، کہیں گے اللہ آپ کہیں پھر تم پر کون سا جادو چل گیا ہے۔
[10] مشرکوں کے من دون اللہ معبودوں کو انداد کیوں کہا گیا ہے ،حالانکہ وہ ان کو خدا کے برابر نہ ذات میں سمجھتے ہیں ، نہ صفات میں ، تو جواب یہ ہے کہ جب انہوں نے خدا کو چھوڑ کر ان کو پوجنا شروع کردیا تو گویا انہوں نےاس شخص جیسا معاملہ کیا،جوسمجھتا ہے کہ وہ بھی مستقل بالذات حیثیت رکھتے ہیں، وہ اللہ کے عذاب کو روک سکتے ہیں یا ان کی حاجتیں پوری کرسکتے ہیں، تو ان کو اس کا الزام دیا اور ان کی برائی بیان کی۔
[11] جوبتوں تھانوں پر ذبح کیا جائے۔
[12] نصب۔ صنم (بت) کنام نہیں ،صنم تو وہ پتھر لکڑی وغیرہ تھے جن کی شکلیں تراشی جاتی تھیں اور نصب وہ پتھر تھے جن کو خانہ کعبہ کے گردا گرد گاڑ رکھا تھا ان کے پاس بتوں کو خوش کرنے کے لیے جانور ذبح کرتے تھے ان کو خون لگاتے تومسلمانوں نے کہا اے اللہ کے رسول کافر بتوں کی تعظیم کے لیے ان کو خون وغیرہ لگاتے ہیں، ہمارا زیادہ حق ہے کہ ہم خدا کو خوش کرنے کے لیے ان کو قربانی کا خون لگائیں تو اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی کہ اللہ کے پاس خون اور گوشت نہیں پہنچتا اس کے پاس صرف پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ وما ذبح علی النصب کا ترجمہ دو طرح پر ہے ایک یہ کہ نصب کی تعظیم کے عقیدہ سے کوئی چیز ذبح کی جائے ، دوسرا یہ کہ نصب ک ےلیے کوئی چیز ذبح کی جائے۔ عربی میں لام اور علی ہم معنی استعمال ہوتے ہیں۔
[13] نصب میں تین قراءتیں ہیں ایک تو یہی جو جمہور کی قراء ت ہے دو نصب اور سوم نصب اورمعنی ایک ہیں یعنی ہر وہ چیز جسے کھڑا کیا جائے مثلاً جھنڈا وغیرہ۔
[14] قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔
[15] یاد آجانے کے بعد ظالم قوم کے ساتھ مت بیٹھو۔
[16] آنحضرتﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ بدعتی کا روزہ، نماز، صدقہ، حج، عمر، جہاد، فرض اور نفل کچھ بھی قبول نہیں کرتے، وہ اسلام سے اس طرح نکل جاتا ہے جیسے بال آٹے سے۔
[17] جو بدعت جاری کرے یا کسی بدعتی کو پناہ دے ،اس پراللہ ، فرشتوں اور سارے جہان کی لعنت ہے ، اللہ اس سے نہ نفل قبول کرے گا نہ فرض۔
[18] جو کسی قوم کی تعدادبڑھائے ،وہ انہی میں سے ہے جو کسی قوم سے مشابہت پیدا کرے وہ انہی میں سے ہے یعنی کفار یا فساق یا صلحاء سے لباس وغیرہ
[19] بتوں کی گندگی سے بچو، اے ایمان والو! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور تیروں کی فال یہ سب گندے اور شیطانی کام ہیں ان سے بچو تاکہ تم خلاصی پاؤ۔
[20] اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ’’اس سے زیادہ گمراہ کون آدمی ہے جو ان کو پکارے جو اس کو قیامت تک بھی جواب نہ دے سکیں اور وہ ان کے پکارنے سےمحض بے خبر ہیں‘‘ اور فرمایا، ’’اللہ کے سوائے ان چیزوں کو مت پکار، جونہ تجھے نفع دے سکیں اور نہ نقصان پہنچا سکیں۔اگر تو نے ایسا کیا توظالموں سے ہوجائے گا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ میری امت کے کچھ قبیلے مشرکوں سے نہ مل جائیں اور کچھ قبیلے میری امت کے بتوں کی پوجا نہ کرنے لگیں۔