کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ بعض آدمی اہل سنت ہونے کا دعوے کرتے ہیں اور امام حسین کی محبت کو وسیلہ بنا کر عشرہ محرم میں تعزیہ پرستی کرتے ہیں، اس کی کیفیت اس طرح ہے کہ پانچویں محرم کو کہیں سے دو مشت خاک لے آتے ہیں اور اس کو امام حسین کی لاش قراردے کر اس کی تعظیم کرتے ہیں اور چبوترہ پر رکھتے ہیں۔ پھر ہر روز اس پرشربت ، فالودہ، مٹھائی وغیرہ کے چڑھاوے چڑھاتے ہیں، اس مٹی کو باعث نجات و مطلب براری سمجھتے ہوئے سجدہ کرتے ہیں اور اس سے مال و دولت و اولاد وغیرہ مانگتے ہیں پھر ساتویں رات کوطہارت کرتے ہیں ایک پگڑی باندھتے ہیں اور اس پر پھولوں کا سہرہ لٹکاتے ہیں اور ایک چوکی پر جس کی دونوں طرف ہاتھ کی شکل کی طرح شکل ہوتی ہے۔ وہ دستار بڑی عزت سے رکھ دیتے ہیں ، آٹھویں رات کو اس چوکی کو مع دستار کے سر پر اٹھا لیتے ہیں، ڈھول بجتا ہے اور ماتم و سینہ کوبی کرتے ہوئے گلی کوچوں میں پھرتے ہیں اور نویں رات کو اس دو مشت خاک کو کفن پہناکر اس قبر میں جو تعزیہ کے اندر بنی ہوتی ہے۔ دفن کردیتے ہیں اور پھر اس کو کندھوں پر اٹھا کر گریہ و زاری اور سینہ کوبی کرتے ہوئے ہائے حسین ہائے حسین کہتے ہوئے گشت کرتے ہیں۔ ایک آدمی تعزیہ کے پیچھے مورچھل کرتا جاتا ہے اور دسویں تاریخ کو چاشت کے وقت اس کفن میں لپٹی ہوئی مٹی کو بمعہ سازو سامان کے روتے پیٹتے اپنے بنائے ہوئے کربلا میں لے جاکر دفن کردیتے ہیں اور اس کے بعد کئی چیزوں پر جن کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں فاتحہ پڑھتے ہیں اور شام کو اس قبر پر چراغ جلاتے ہیں اور ان لوگوں کے متعلق کیا حکم ہے،جوامام حسین کی قبر کی شبیہ اپنی طاقت کے مطابق لکڑی ، سونے، چاندی سے بناتے ہیں، اس کو اپنے گھروں میں نہایت تعظیم سے رکھتے ہیں اس کی پوجا کرتے ہیں بعض ہاتھ وغیرہ کا علم بنا کر قبر کے ساتھ باندھ دیتے ہیں اور ساتویں رات علم کوتعزیہ سے جدا کرکے گشت کے لیےلے جاتے ہیں اور دسویں دن علم مذکور کو سہرے وغیرہ پہنا کر تعزیہ کے ساتھ قبر میں دفن کردیتے ہیں اور ایسے لوگوں کے متعلق کیا حکم ہے جو محرم شروع ہوتے ہی پورے تکلفات سے کمرون کو آراستہ کرتے ہیں۔ آدمیوں کو بلاکر مرثیہ خوانی کرتے ہیں، کربلا کے واقعات سناتے ہیں، مستورات کی بے عزتی کی داستانیں بیان کرتے ہیں اور ہائے حسین کہتے ہوئے ماتم کرتے ہیں۔پھر شیرینی تقسیم ہوتی ہے، کیا یہ لوگ اہل سنت والجماعت ہیں اورکیا یہ کام جائز ہے یا کفر اور شرک ہے یا گناہ صغیرہ ہے یا کبیرہ۔ بینوا توجروا
اہل سنت والجماعت وہ آدمی ہوسکتا ہے جو نبی کریمﷺ اور صحابہ کرامؓ کی راہ پر چلتا ہو اور یہ تمام امور جو سوال میں مندرجہ ہیں نامشروع حرکات ہیں۔نبی کریمﷺ صحابہ کرام اور ایمانداروں کی راہ یہ نہیں ہے ۔ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہیں جہنم میں داخل ہونے کا سبب ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔’’جو ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد رسول کی نافرمانی کرے اور ایمانداروں کی راہ چھوڑ کر کوئی اور راستہ اختیار کرے تو جدھر جاتا ہے جائے ہم اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بدترین جگہ ہے، امام بیضاوی کہتے ہیں کہ ’’اس آیت سے اجماع کی مخالفت کی حرمت معلوم ہوتی ہے‘‘ اور ایسے لوگ اہلسنت کا دعویٰ کرنے میں بالکل جھوٹے ہیں، شریعت مطہرہ کے دائرہ سے خارج ہیں ایسے لوگوں کی کوئی عبادت قبول نہ ہو گی۔ آنحضرتﷺ نےفرمایا ہے ’’اللہ تعالیٰ بدعتی آدمی کا روزہ، نماز، صدقہ، حج ، عمرہ، جہاد، نفل اور فرض کچھ بھی قبول نہیں کرتے اور وہ اسلام سے اس طرح نکل جاتا ہے جیسے آٹے سےبال‘‘ اس مضمون کی حدیث ابن ماجہ، بسار اور طبرانی میں آئی ہے ۔ شاہ عبدالعزیز نے ان امور کو اپنی تفسیر میں شرک کہا ہے اور تعزیہ کو سجدہ کرنا بت کو سجدہ کرنے کے برابر ہے کیونکہ لغۃ ًہر وہ چیز جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے نصب (بت) ہے۔ صاحب مجالس الابرار اورجوہری نے اس کی تصریح کی ہے۔
شرح مواقف میں ہے کہ سورج کو سجدہ کرنا کفر ہے ، اب خو دہی سوچو تعزیہ اور سورج میں کیا فرق ہے ؟ مسلمانوں کو ان امور بدعیہ سے پرہیز کرنا چاہیےتاکہ صحیح مسلمان بن سکیں۔ ترمذی میں ابوواقد لیثی سے حدیث ہے کہ جب رسول اللہﷺ غزوہ حنین کو نکلے تو راستہ میں ایک درخت آیا جس پر مشرک لوگ اپنی تلواریں لٹکایا کرتے تھے، اس کو ذات انواط کہتے تھے نومسلموں نے کہا یارسول اللہ ہمیں بھی ایک ذات انواط بنا دیں تو آپ نے فرمایا۔ سبحان اللہ یہ تو قوم موسیٰ کی سی بات ہوئی کہ انہوں نےموسیٰ سے درخواست کی تھی کہ ان کے خداؤں جیسا کوئی ہمیں خدا بنا دیں، خدا کی قسم تم یہود و نصاریٰ کی ضرور پیروی کروے گے ، پس تعزیہ داری بھی ذات انواط ہی کی ایک صورت ہے کہ لوگ اس پرچڑھاوے چڑھاتے ہیں ، یہ لوگ پورے مشرک و کافر ہیں کیونکہ انہوں نےخدا کے لیے شریک بنا دیئے جس کی مخالفت قرآن مجید کی آیت فلا تجعلوا للہ انداداً میں ہے۔
اگر کوئی آدمی سوال کرے کہ تعزیہ و ضریح بلکہ مشرکوں کے بت وغیرہ کو بھی خدا کا شریک کیسے بنایا جاسکتا ہے ، جب کہ وہ ان کو خدا کے برابر درجہ نہیں دیتے، بلکہ اس سے کم تر سمجھتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب اپنی توجہ ان چیزوں کی طرف کر لی گئی اور ان سے اپنی حاجتیں مانگنے لگے اور خدا کی درگاہ چھوڑ دی تو پھر خواہ زبانی برابری تسلیم نہ کریں ، عملی برابری بلکہ اس سے بڑھ کر ان کوسمجھا جانے لگا تو ان پر مشرک کا لفظ صادق آئے گا چنانچہ تفسیر بیضاوی میں بعینہ یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔
پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ تعزیہ پرستی وغیرہ تمام امو ربرائے نفس اور خواہشات نفسانی کی بنا پر کیے جاتے ہیں اور ہویٰ پرستی بھی تو شرک ہے، اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں’’کیا وہ آدمی بھی دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا بنا رکھا ہے‘‘ ار حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے اپنی امت پر ہوائے نفس اور طول حرص کا خوف ہے کیونکہ خواہش راہ حق سے روک دیتی ہے اور لمبی امید آخرت کو بھلا دیتی ہے اور یہ اشراک فی الحکم کی قسم ہے کہ جب کوئی چیز اچھی معلوم ہوئی تو اس کے سامنے جھک گئے۔
ہاں بعض لوگ ان اعتقادات فاسدہ سے خالی الذہن ہوتے ہیں اور محض آبائی رسم سمجھتے ہوئے اس تعزیہ داری کی رسوم کو بجا لاتے ہیں۔ اس صورت میں اسراف و تضییع مال میں مبتلا ہوتے ہیں، یہ بھی تو شیطان کے بھائی ہیں ، پس صحیح طریق صرف یہ ہے کہ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا جائے ، ان کے لیے دعائے مغفرت کی جائے اور یا پھر کوئی صدقہ وغیرہ کرکے ان کو ثواب پہنچا دیاجائے ،وہ بھی بلا تخصیص ایام، باقی رہا یہ سینہ کوبی اور نوحہ و شیون وغیرہ تو آنحضرتﷺ کی سنت کے بالکل برخلاف ہے اور یہ بانس و کاغذ وغیرہ سے تعزیہ بنانا اور اس کی زیارت کرنا لعنت کا موجب ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ اللہ اس آدمی پر لعنت کرے جو کسی فرض قبر کی جس میں کوئی مرُدہ دفن نہیں ہے، زیارت کرے۔‘‘
پس ایسے لوگ جومحض اتباع ہوائے نفس کی بنا پر تعزیہ پرستی وغیرہ کریں اور سنت کی پرواہ نہ کریں، اہل سنت والجماعت بلکہ دائرہ اسلام سےخارج ہیں۔ آنحضرت ﷺ نےفرمایا ہے ’’جو جماعت سے ایک بالشت بھی علیحدہ ہوجائے اس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سےنکال دی ‘‘ ایسے لوگوں کو شرک و بدعت چھوڑ کر توبہ و استغفار کرنی چاہیے اور عبادات بدنیہ و مالیہ کا ثواب ان کو بخشنا چاہیے تاکہ سعادت داریں حاصل کریں۔ واللہ اعلم۔