سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(44) اذان میں جب اشھد ان محمد الرسول اللہ کہاجاتا ہے

  • 5551
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2424

سوال

(44) اذان میں جب اشھد ان محمد الرسول اللہ کہاجاتا ہے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں  کہ اکثر لوگ اذان میں  جب اشھد ان محمد الرسول اللہ کہاجاتا ہے ،یا جمعہ کے خطبہ میں  جب اللہم [1]انصر من نصر دین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واخذل من خذل دین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آتا ہے تو انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگا لیتے ہیں یہ فعل کیسا ہے، کتب احادیث و فقہ یا قول ائمہ سے پایا جاتا ہے یا نہیں اور اگر کہیں سے اس کاجواز ثابت نہیں تو اس کے کرنے والے کیسے ہیں اور بعض یہ کہتے ہیں کہ اس فعل سے آنکھ کی روشنی تیز ہوتی ہے اور اس کو فرمودہ رسول بتاتے ہیں ، اس کا پتہ بھی کچھ حدیث و فقہ میں  کہیں لگتا ہے یا نہیں۔ بینوا توجروا



[1]   اے اللہ اس کی مدد کرو جو محمد ﷺ کے دین  کی مدد کرے اور اس کو ذلیل کر جو محمدﷺ کے دین کوذلیل کرے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مرقومہ میں  معلوم کرنا چاہیے کہ دنیافانی ہے چند روز کی زندگانی ہے، مرنا برحق ہے ، جہاں تک ہوسکے اتباع جمیع امور میں  سنت سرور کائناتﷺ کا ہونا چاہیے ، کیونکہ فلاح دارین اسی میں  ہے اور اپنی طرف سے ایجاد ہرگز نہ کرنا چاہیے اگرچہ وہ عند الطبع مرغوب و مستحسن ہو، جیسے کہ یہی امر یقینی تقبیل ابہام وغیرہ جہاں عوام  کالانعام بلکہ بعض بعض خواص کے نزدیک بھی بہتر و احسن معدود شمار کیا جاتا ہے حالانکہ یہ امر یعنی چومنا انگوٹھوں وغیرہ کا  عندالتاذین یاعند قول الخطیب اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الخ صحابہ کرام نے  مع [1] انہ لم یکن شخص احب الیہم منہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کما جلد فی الحدیث اور نہ کسی امام  نے ائمہ اربعہ میں  سے کیا اور جو فعل نہ حضرتﷺ سے ثابت ہوا اورنہ صحابہ کرام سے  اور نہ ائمہ اربعہ سے تو وہ کام بدعت اور مردود ہوتا ہے۔ قال الامام الجلیل السیوطی الاحادیث التی روایت فی تقبل الانامل و جعلہا علی العینین عند سماع اسمہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم عن المؤذن فی کلمۃ الشہادۃ کلہا موضوعات انتہی ما فی الرسالۃ المسماۃ بتسیر المقال للامام الکبیر الشیخ جلال الدین السیوطی ، یعنی جس  قد رحدیثیں دربارہ چومنے انگوٹھوں وغیرہ کے لوگ نقل کرتے ہیں ، سب کی سب موضوع اور بناوٹی جھوٹی ہیں اور ماہر فن لکھتے چلے آتے ہیں کہ یہ حدیثیں بے اصل ہیں اور پایہ صحت کو نہیں پہنچتیں۔کذا قال  الشیخ محمد طاہر الحنفی والملاعلی القاری الحنفی و الشیخ الشوکانی المحدث وغیرہم فی کتبہم المشہورۃ المنسوبۃ الیہم اور حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اپنے فتوے تقبیل العینین میں  فرماتے ہیں کہ جو  شخص اس فعل کو سنت جان کر کرے وہ مبتدع اور کرنا  اس کابدعت ہے اور بہت علمائے ماہرین اس فعل کو بدعت کہتے ہیں۔ بخوف طول ترک کیا اور مولانا الشیخ یعقوب چرخی نے خیرالجاری شرح صحیح بخاری میں  صاف صاف اس فعل کوبدعت لکھا ہے ، الغرض یہ فعل ہرگز درست نہیں بلکہ بدعت ہے۔

اقول:

افسوس  صد افسوس مسلمان دینداروں پرکہ جو حضرت ﷺ نے خود تعلیم فرمایا کہ یہ اذان کے وقت یا اس کے بعد کہاکرو اس کو ترک کیا اور اپنی طرف سے بہت سی  باتیں ایجاد کرلیں۔ حضرت نےفرمایا ہے کہ جیسے مؤذن کہتا ہے، ویسے ہی کہو، تمام گناہ  صغائر معاف ہوجائیں گے ، بعد ختم اذان کے درود شریف پڑھے، اور یہ دعا  اللھم[2] رب ھذا الدعوۃ التامۃ والصلوۃ القائمۃ ات محمدہ الوسیلۃ والفضیلۃ وابعثہ مقاما  محمود الذین وعدتہ۔ بس یہاں تک پڑھے، حضرت کی شفاعت اس کے لیے واجب ہوجائے گی اور بعض لوگ وعدتہ کے پیچھے اور چند کلمات پڑھتے ہیں ، وہ درست  و ثابت نہیں ہیں کیونکہ  کسی صحیح حدیث شریف میں  نہیں آئے اور جو بعض لوگ اذان کے بعد یعنی کلمہ لا الہ الا اللہ کے بعد محمد رسول اللہ زیادہ کرکے پڑھتے ہیں ، یہ بھی نادرست ہے ، یعنی محمد رسول اللہ قرآن شریف وغیرہ میں  آیا ہے،و لیکن خاص اس محل میں  شارع سے ثابت نہیں ہوا جو امر شارع سے ثابت  ہو وہی کرنا چاہیے نہ یہ کہ اپنی طرف سے ایجاد کرلینا یہ بہت مذموم ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں  آیا ہے کہ جب عطاس یعنی چھینک کوئی لیوے تو کہے الحمد للہ اور سننے والا یرحمک اللہ کہے، یہ شارع کا حکم تھا تو صحابہ کرام کے وقت ایک شخص نے عطاس لے کر الحمدللہ السلام علیکم کہا، تب سالم صحابی نے کہا وعلیک وعلی امک یعنی تیری ماں پر اور تجھ  پر سلام ہو، پس وہ شخص کچھ خفا سا ہوا، تب  سالم نے فرمایا کہ بھائی خفا کیوں ہوتے ہو میں  نے کچھ بےجا کلمہ نہیں کہا، اسی طرح حضرت کے پاس ایک شخص نے کہا تھا جیساکہ تم نے  چھینک کے بعد کہا تو حضرت نے بھی ایسا کہا جیساکہ میں  نے کہا، تب حضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ محل سلام کہنے کا نہیں ہے۔ ھکذا فی الترمذی وابی داؤد والمشکوٰۃ و غیرہا من کتب الحدیث۔

ایک اور حدیث میں  آیا ہے کہ عبداللہ بن عمرؓ کے پاس ایک شخص نے چھینک لی  بعد اس نے کہا الحمدللہ[3] والسلام علی رسول اللہ تو عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا ،ہم بھی  یہی کہتے ہیں کہ سب تعریف اللہ پاک کو ہے اور درود رسول پر ہے و لیکن یہ محل درود وغیرہ کا نہیں ہے جس طرح حضرت ﷺ نےتعلیم کی ہے یعنی الحمدللہ کہناچاہیے ویسا ہی کرو، اور یہ اس محل پر ہم کو حضرت نےتعلیم نہیں کیا،کذا فی المشکوٰۃ

اب ارباب فطانت پر مخفی نہ رہے کہ، معاذ اللہ کچھ محمد رسول اللہ کا انکار نہیں ہے ولیکن عرض یہ ہے کہ اس کا یہ محل نہیں ہے، اس محل میں  ادعیہ و اذکار جو وارد ہیں ان کاکہنا چاہئے اور شیخ عبدالحق حنفی دہلوی نے بھی یہی لکھا ہے کہ محمد رسول اللہ کا یہ محل و موقع نہیں ہے ، کہنا نادرست ہے ، کذا فی اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ للشیخ عبدالحق دہلوی انتہی۔

اب معلوم کرنا چاہیے کہ مسنون طریقہ بعد اذان کے یہ ہے ،اوّل تو جس طرح مؤذن کہے اللہ اکبر تو سننے والابھی اسی  طرح کہے۔ جب  مؤذن اشھد ان لا الہ الا اللہ کہے تو وہ بھی یوں ہی کہے، جب مؤذن اشھد ان محمد ارسول اللہ کہے تو سننے والابھی  اشھد ان محمدا رسول اللہ اور انگوٹھے وغیرہ نہ چومے، کیونکہ یہ بدعت ہے ، کما مر، اورجب مؤذن حی علی الصلوٰۃ کہے ، تو سننے والا لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہے اور جب مؤذن حی علی الفلاح کہے ، تو سننے والا کہے لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم اور بعض بوقت سننے ان ہردو کلمہ کے یعنی حی علی الصلوٰۃ و حی علی الفلاح کہتے ہیں ماشاء اللہ کان ومالم یکن یہ نادرست ہے اور بے اصل بات ہے۔ ہکذا فی شرح الشیخ عبدالحق حنفی الدہلوی اور جب مؤذن اللہ اکبر کہے تو سننے والابھی اللہ اکبر کہے اور جب مؤذن کہے لا الہ الااللہ  تو سننے والابھی  لا الہ الا اللہ کہے، بس  اور محمد رسول اللہ نہ ملاوے کیونکہ یہ محل نہیں ہے بلکہ بدعت ہے،افسوس جہالت نے ایسا زو رپکڑا ہے کہ جو حق بات ہے وہ ناحق اور باطل معدود کی جاتی ہے اور جوبات باطل اور بےاصل ہے، وہ مروج اور دائرہ حق میں  شمار کی جاتی ہے، سچ فرمایا ہے ، رسول مقبولﷺ نے کہ جب سنت کی جگہ بدعت اور بے اصل بات قائم کی جائے تو سنت تو نیست و نابود ہوجاتی ہے اور بے اصل بات گڑ اور جم  جاتی ہے۔ کذا فی المشکوٰۃ ۔ حقیقت میں  یہی حال ہے کہ سنت متروک اور بدعت مروج ہورہی ہے اور جب تکبیر میں  قد قامت الصلوٰۃ (نماز کھڑی ہوگئی) کہے تو سننےوالا اقامہا اللہ و ادامھا (اللہ اسے کھڑا رکھے اور ہمیشہ رکھے) کہے اور کچھ نہ کہے اور باقی کلمات کا جواب جیسا اوپرمذکور ہوا ویسا ہی کہے اور جب مؤذن الصلوۃ خیر من النوم (نماز سونے سے بہتر ہے)کہے تو سننےوالا بھی الصلوٰۃ خیر من النوم کہے اور کچھ نہ کہے یعنی صدقت و بررت وغیرہ نہ کہے ، کیونکہ  اس کاثبوت حدیث میں  نہیں ہے پس بعد فراغت جواب مؤذن درود شریف اور مذکورہ بالا دعا پڑھے اور اپنے یا غیر کے لیے جو دعا مانگے قبول ہوگی، یہ مسنون طریقہ ہے ، باقی بدعت ہے فقط واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والماب حررہ العاجز ابو محمد عبدالوہاب الفنجابی الجھنگوی ثم الملتانی نزیل الدھلی تجاوز اللہ عن ذنبہ الحنفی و الجلی فی اواخر شہر المحرم 1306ھ

(سید محمد نذیر حسین)



[1]   حالانکہ  کوئی شخص بھی صحابہ کرامؓ سے بڑھ کر آنحضرتﷺ سے محبت کرنے والا نہیں ہے۔

[2]   اےاللہ اس پوری  دعوت اور قائم ہونے والی نماز کے رب ،محمد(ﷺ) کومقام وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور آپ کو مقام محمود پر پہنچا جس کا آپ سے تو نے وعدہ کیا ہے۔

[3]   سب  تعریف اللہ کے لیے اور سول اللہ پرسلام ہو۔

 


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے