سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(43) اشہد ان محمدا رسول اللہ کے سننے کے وقت انگوٹھے چومنا

  • 5550
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2191

سوال

(43) اشہد ان محمدا رسول اللہ کے سننے کے وقت انگوٹھے چومنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگ ناواقف علم حدیث جن کو صحیح اور سقیم اور ضعیف اور موضوع اورغیر موضوع میں  کچھ امتیاز نہیں ہے ، مؤذن سے اشہد ان محمدا رسول اللہ کے سننے کے وقت انگوٹھے چوم کر آنکھوں پرلگاتے ہیں اور اس فعل کو چند احادیث کتب طبقہ رابعہ سےحجت لاکرسنت جانتے ہیں، اس باب میں  کتب معتبرہ سےجوصاف صاف حکم ہو، ارشادفرمائیں۔ بینو ا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مقدمہ مذکور میں  جتنی حدیثیں کہ  مذکور ہیں ان میں  سے ایک بھی صحیح و ثابت نہیں اور نہ ان کا کسی معتمد کتاب میں  پتہ و نشان پایا جاتا ہے ، محققین و نقاد احادیث نے ان سب احادیث  میں  کلام کرکے تصریح غیر صحیح اور موضوع ہونے کی  کردی ہے تفصیل اس اجمال اور تریح اس مقال  کی یہ ہے کہ اول تو یہ سب حدیثیں کتب احادیث طبقہ رابعہ سے ہے اور اس طبقہ کی احادیث اس قابل نہیں کہ کسی عقیدہ اور عمل کے ثابت کرنے میں  ان پر اعتماد کیاجائے اور ان کو تمسک بہ  ٹھہرایا جائے، چنانچہ مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی  عجالہ نافعہ میں  ارشاد فرماتے ہیں۔

چوتھے طبقہ کی وہ حدیثیں ہیں، جن کا  پہلے زمانہ میں  نام و نشان نہ تھا، اور متاخرین نے ان کو روایت کیاہے، ان کا حال دوحیثیتوں سےخالی نہیں ہے یاتو سلف نے ان کو پرکھا اور ان کا کوئی اصل نہ مل سکا کہ  ان کی روایت کرتے یا کوئی اصل تو تھا،لیکن ان میں  ایسے نقص دیکھے کہ ان کو چھوڑ دینا ہی مناسب معلوم ہوا بہرحال وہ حدیثیں کسی طرح بھی اس  قابل نہ تھیں کہ ان پر عقیدہ و عمل کی بنیاد رکھی جاتی۔

دوسرے  یہ کہ علامہ شمس الدین ابوالکیر محمد بن وجیہ الدین عبدالرحمٰن سخاوی نے مقاصد حسنہ میں  اور شیخ الاسلام مترجم بخاری اور حسن بن علی ہندی اور ابن ربیع شافعی اور زرقانی مالکی اور محمد طاہر فتنی حنفی نے ان احادیث کو لا یصح لکھا ہے اور لفظ لا یصح کا بمعنے ثابت نہ ہونے کے آتا ہے، چنانچہ علامہ محمد طاہر پٹنی نے اپنے تذکرہ میں  لکھا ہے  قولنالم یصح لا یلزم منہ اثبات العدم و انما ھو اخبار عن عدم الثبوت انتہی ، یعنی  قول ہمارا لا یصح  نہیں لازم آتا ہے اس سے اثبات نہ ہونے کا اور نہیں ہے وہ قول مگر کبر دیتاہےنہ ثابت ہونے سے اور شیخ الاسلام نےترجمہ بخاری میں  لکھا ہےکہ ’’مسند فردوس میں  حضرت ابوبکر ؓ سے روایت کیا گیا ہے کہ جب وہ مؤذن سے اشہد ان محمدا رسول اللہ سنتے تو اپنی دونوں سبابہ انگلیوں کے پوروں کو چوم کر اپنی آنکھوں پر لگالیتے ۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا جو کوئی تیری طرح کرے گا اس کےلیےشفاعت واجب ہوجائے گی اور حسن بن علی ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو آدمی مؤذن سے یہ کلمہ سن کر کہے مرحبابحبیبی و قرۃ عینی محمد  بن عبداللہ اور اپنے انگوٹھوں کو چوم کر اپنی آنکھوں پر پھیرے تووہ  کبھی نابینا نہ ہوگا اور نہ کبھی اس کی آنکھیں دکھیں گے اور محدثین کے نزدیک یہ دونوں روایتیں قطعاً ثابت نہیں ہیں۔

اور حسن بن علی ہندی صاحب سبیل الجنان نے تعلیقات مشکوٰۃ المصابیح میں  لکھا ہے ۔ کل ماروی فی وضع الابہا مین علی العینین عند سماع الشہادۃ من المؤذن لم یصح انتہی، یعنی جوکچھ روایت کیا گیا ہے ، مؤذن سے رکھنے انگوٹھوں میں  آنکھوں پروقت  سننے کلمہ شہادت کے ثابت نہیں ہوا اور محمود احمد عینی نےعمدۃ القاری شرح بخاری میں   بیچ باب ما یقول اذاسمع المنادی کے لکھا ہے یجب علی السامعین ترک عمل غیر الاجابۃ انتہی  ملخصا یعنی اذان کے سننے والوں پر ہر کام کا چھوڑ دینا اور جواب اذان دینا واجب ہے اور یہ بھی شرح مذکور کے اسی باب میں  لکھا ہے۔ ینبغی ان لا ینکلم السامع فی خلال الاذان والاقامۃ ولا یقرأ القرآن ولا یسلم ولا یرد السلام ولا یشغل یشئ من الاعمال سوی الاجابۃ انتہی یعنی لائق یہ ہے کہ نہ کلام کرے سننے والا درمیان اذان اور اقامۃ کے اور نہ پڑھے قرآن اور نہ سلام کرے اور نہ جواب سلام کادے اورنہ مشغول ہو ساتھ کسی عمل کے  سوا جواب دینے اذان کے۔

اور محمد یعقوب نبنانی نے خیر اری شرح صحیح بخاری میں  بعد نقل عبارت عینی کے لکھا ہے  واعلم انہ یستفاد من کلام العینی المذکور فیہ منع وضع الابہا مین علی ا لعینین عند سماع اشھد ان محمد ا رسول اللہ یعنی جان تو تحقیق  مستفاد ہوتا ہے کلام عینی سے جو یہاں مذکور ہے منع ہونا رکھنے انگوٹھوں کا آنکھوں پروقت سننے اشہد ان محمد رسول اللہ کے ۔

اور علامہ ابواسحاق بن عبدالجبار کابلی نے شرح رسالہ عبدالسلام لاہوری میں  لکھا ہے قد تکلموا فی احادیث وضع الابہامن علی العینین فلم یصح شق منہا بروایۃ ضعیفۃ ایضا صرح بعضہم بوضع کلہا انتہی یعنی تحقیق کلام کیا ہے، علمائے محدثین ن حدیثوں میں  رکھنے انگوٹھوں کے آنکھوں پر ، پس نہیں ثابت ہوا ہے کچھ ان میں  سے ساتھ روایت ضعیفہ کے بھی اور اسی واسطے تصریح کی ہے بعض محدثین نے ساتھ موضوع ہونے کلُ ان احادیث کے چنانچہ امام ابوالحسن عبدالغافر فارسی صاحب مفہم شرح صحیح مسلم اور مجمع الغرائب نےکتاب اقوال الاکاذیب میں  لکھا ہے ،بعد نقل احادیث فردو س دیلمی کے جو اس باب میں  وارد ہیں لکھا ہے۔ والروایات فی ھذ االباب کثیرۃ لا اصل لہا بسند ضعیف ایضا و قال ابونعیم الاصفہانی ماروی فی ذلک کلہ موضوع انتہی یعنی روایات چومنے اٹگوٹھے اور ان کے آنکھوں پررکھنے کی بہت ہیں، مگر نہیں ہے کچھ اصل ان کی سند ضعیف سے بھی اور فرمایا حافظ ابونعیم اصفہانی نے کہ اس میں  جو روایت کیا گیاہے سب موضوع ہے۔

اور امام جلال الدین سیوطی نے کتاب تیسیر المقال میں  لکھا ہے ،والاحادیث التی رویت فی تقبیل الانامل وجعلہا علی العینین عندسماع اسمہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن المؤذن فی کلمۃ الشہادۃ کلہا موضوعات انتہی یعنی جو حدیثیں مؤذن سے کلمہ شہادت سننے کے وقت  آنحضرتﷺ کےنام  پر انگلیاں چومنے اور پھر ان کے آنکھوں پر پھیرنے کے بارہ میں  روایت کی  گئی ہیں، سب  موضوع ہیں اور ایسا ہی  امام مذکور نے کتاب الدرۃ المنتشرہ فی احادیث المنتشرہ میں  لکھا ہے ،انتہی ما فی بصارۃ العینین ملخصاً مختصراً

پس اس سبب سے معلوم ہوا کہ علمائے محدثین معتبرین کے نزدیک فعل مذکور ثابت و صحیح نہیں ہوا اور کل احادیث جو اس باب میں  مذکور ہیں سب موضوع ہیں اور فعل مذکور ہرگز ہرگز سنت و مستحب نہیں ہے بلکہ بدعت و ممنوع ہے ، چنانچہ شاہ عبدالعزیز  اپنے فتوے میں   ارقام فرماتے ہیں۔

’’اذان کے  وقت جواب کلمات اذان کے سوا اور کوئی چیز ثابت نہیں ہے اور آنحضرتﷺ کا نام سننے پر ان پر درود و سلام بھیجنے کے سوا اور کوئی چیز درست نہیں اور یہ انگوٹھے چومنےکا عمل خلفائے راشدین کے زمانہ میں  نہیں تھا پس بو قت اذان نبی ﷺ کا نام سن کر ایسا کرناسنت اور مستحب نہیں بلکہ بدعت ہے۔ اس سے پرہیز کرنا چاہیے اور فقہ کی بعض کتابوں میں  جو اس کے جواز کے متعلق لکھا ہے، وہ کتابیں معتبر نہیں ہیں۔‘‘

اور محدث لکھنوی مرز احسن علی صاحب بھی اپنے فتوی میں  اسی طرح لکھتے ہیں کہ  ’’ایسا کرنا  منع ہے اور بدعت اور وہ جو ابوبکرؓ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے وہ حدیث موضوع ہے اور فقہ کی معتبر کتابوں میں  بھی اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔‘‘ واللہ اعلم بالصواب ۔

حررہ السید محمد نذیر حسین عفی عنہ                                            (سید محمد نذیرحسین)


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

تبصرے