بخدمت علمائے فضیلت شعار گزارش ہے کہ جواب مسئلہ ہذا سے ممتاز فرماویں۔
(1) اگر کوئی شخص بلا دریافت حال ایسے شخص کا مرید ہوجائے کہ اس شخص کے ہاں علانیہ شرک و بدعت ہوتا ہو اور جلسے خلاف شریعت ہوتے ہوں تو کیابعد معلوم ہوجانے حالات مندرجہ کے اس مرشد سے تعلقات مریدی منقطع کرلینے چاہیئیں یا بدستور قائم رہنے دیئے جائیں کیونکہ شریعت کے خلاف کرنا یادوسروں کو کرتے ہوئے دیکھنا طبیعت کو بُرامعلوم ہوتا ہے ۔ الحاصل اگر ایسے مرشد سے قطع تعلق اور سلسلہ آمدورفت کا بند کردیا جائے تو وہ شخص قابل مواخذہ تو نہیں ہوسکتا۔براہ کرم اس عاصی کو جواب باصواب سے سرفراز فرمائیں۔
(2) برہنہ سر ہوکرنماز پڑھنا درست ہے یا نہیں، جیسا کہ آج کل کے فقیر بوجہ ریا کے ننگے سر نماز پڑھا کرتے ہیں۔
(3) مسواک اگر گھستے گھستے بالکل چھوٹی ہوجائے اور قابل گرفت نہ رہے تو اس کو کیا کرنا چاہیے اکثر لوگ کہا کرتے ہیں کہ اس کو زمین میں گاڑ دینا چاہیے کہ قیامت کے دن اس کاسایہ اس شخص پر ہوگا ، یہ مسئلہ سچ ہے یا مصنوعی ۔بینوا توجروا۔
(1) اس صورت میں اس مرشد سے قطع تعلق کرنا ضروری ہے اور آمدورفت کا سلسلہ بھی بندکرنا لازم ہے اور ایسے مرشد کی تابعداری شرعاً ہرگز درست نہیں، جیسا کہ مشکوٰۃ شریف میں ہے۔ عن [1]ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم السمع و الطاعۃ علی المرء المسلم فیما احب و کرہ مالم یؤمر بمعصیۃ فاذا امر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ متفق علیہ و عن علی قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا طاعۃ فی معصیۃ انما الطاعۃ فی المعروف و عن النواس بن سمعان قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخلاق رواہ فی شرح السنۃ سب لوگوں پرعموماً اور علمائے حقانی پر خصوصاً ضروری و لازم ہے کہ عوام الناس کو ایسے مرشد کو ہاتھ سے روکیں اگرہاتھ سے نہ روک سکیں ، تو زبان سے ، اگر زبان سے بھی نہ روک سکیں ، تو دل میں تو ضرور بیزار ہوں، مگر یہ اضعف ایمان ہے،جیسا کہ مسلم شریف میں ہے ۔ عن [2]ابی سعید الخدری عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال من رای منکم منکر ا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ و ذلک اضعف الایمان۔
(2) بوجہ ریا برہنہ نماز پڑھنا درست نہیں ، کیونکہ ریا شرک میں داخل ہے جیسا کہ مشکوٰۃ میں ہے۔ عن[3] محمود بن لبید ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال ان اخوف مااخاف علیکم الشرک الاصغر قالوا یا رسول اللہ وما الشرک الاصغر قال الریاء رواہ احمدہاں اگر بلا ریا برہنہ نماز پڑھے توجائز ہے، جیسا کہ بخاری میں ہے عن [4]ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا یصلی احدکم فی الثوب الواحد لیس علی عاتقہ منہ شئ ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں سر ڈھانپنا ضروری نہیں، ہاں یہ ایک مسنون امر ہے اگر کرے تو اولے ہے، نہ کرے تو عقاب نہیں۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے یابق[5] آدم خذوا زینتکم عند کل مسجد، اسآیت سے ثابت ہوا کہ ٹوپی و عمامہ سے نماز پڑھنا اولےٰ ہے، کیونکہ لباس سے زینت ہے، اگر عمامہ یا ٹوپی رہتے ہوئے تکاسلاً برہنہ نماز پڑھے تو مکروہ ہے اور اگربوجہ عاجزی و انکساری برہنہ سر نماز پڑھے تو بلا شبہجاوس ہے ، جیسا کہ عالمگیریہ میں ہے۔ یکرہ[6] الصلوٰۃ و اسرار اسہ اذا کان یجد العمامۃ وقد فعل ذلک تکاسلا و تہاونا ولاباس بہ اذا فعل تذللا و خشوعا بل ھو حسن کذا فی الذخیرۃ۔
(3) یہ مسئلہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے بلکہ محض مصنوعی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب حررہ حمید الرحمٰن عفی عنہ... سید محمد نذیر حسین
[1] عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مسلمان کا کام ہے سننا اور اطاعت کرنا ، خواہ اسے پسندہویا ناپسند،بشرطیکہ وہ کام گناہ کا نہ ہو، اور اگر اسے گناہ کا حکم دیا جائے، تو نہ سننا اور نہ اطاعت ، حضرت علی کہتے ہیں، کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا، گناہ میں کسی کی اطاعت نہیں ہے، اطاعت صرف اچھے کام میں ہے ، نواس بن سمعان کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی فرمانبرداری نہیں ہے۔
[2] آنحضرت ﷺ نے فرمایا، جو کوئی بُرائی دیکھے ، اسے اپنی طاقت سےروکے اور اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سےروکے ،اگر اتنا بھی نہ کرسکے ، تو دل سے اُسے بُرا سمجھے اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔
[3] رسول اللہﷺ نے فرمایا، مجھے سب سے زیادہ خوف تمہارے لیےچھوٹے شرک کا ہے، لوگوں نے پوچھا ، چھوٹا شرک کیا ہے، فرمایا ، دکھلاوا۔
[4] رسول اللہﷺ نے فرمایا، کوئی آدمی ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھے پراس کاکوئی حصہ نہ ہو۔
[5] اےبنی آدم مسجدوں میں جاتے وقت اپنی زیب و زینت کیا کرو۔
[6] اگر کوئی آدمی محض سستی کی وجہ سے پگڑی ہوتے ہوئے ننگے سر نماز پڑھے تو مکرہ ہے اور اگر خشوع و ذلت اور انکساری کی بنا پر ننگے سر پڑھے تو یہ بہتر ہے۔