سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(38) ایک شخص مسلمان ہے اور وہ ایک موضع میں رہتا ہے..الخ

  • 5545
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1132

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں  کہ ایک شخص مسلمان ہے اور وہ ایک موضع میں  رہتا ہے اور نماز روزہ کبھی نہیں پڑھتا اور نہ کبھی اس کی زوجہ ہی نماز پڑھتی ہے غرضکہ دونوں میاں روز مرہ شراب پیتے اور شرک و بدعت کے کاکرتے ہیں۔ شرک یہ ہے کہ اس شخص نے ایک ہنود عورت کو مقام دیرہ سے بلا کر اسے کہا کہ ہمارے گاؤں بھر میں  ڈنگروں میں  دکھ یعنی بیماری پھیل رہی ہے تم اس کو کسی طرح دفع کردو، جواب میں  اس عورت نے یہ شرط پیش کی کہ جس طرح سے میں  تم کو بتلاؤں ، تم کو اس پر کاربند ہونا پڑے گا اور میں  اس بیماری کو دفع کردوں گا، اس مسلمان نے اس کی ہرایک بات منظو کرنےکا اقرار کرلیا، تب مسماۃ مذکورہ نے کہاکہ تین روز تک اس گاؤں بھر میں  کوئی مسلمان اپنے اپنے گھر میں  چولہے پر توا نہ چڑھائے یعنی روٹی نہ پکائے اور نہ ہی تین روز تک کوئی دودھ دہی جمائے، چنانچہ گاؤں بھرکے مسلمانوں نے ایسا ہی کیا ،پھر اس عورت نے تین روز تک سب مسلمانوں میں  جاکر صبح و شام سنکھ بجایا، بعدازاں اس نے یہ کہا کہ ایک ان بیاہی بکری یعنی بغیربچہ کے لاؤ، سو اس مسلمان نے ویسا ہی کیا یعنی بکری لا دی گئی تو عورت نے بکری کو کسی کلہاڑا وغیرہ سے مار ڈالنے کی ہدایت کی، مسلمان مذکور نے ایک چمار ملازم سے اس کی ہدایت کے بموجب مروا ڈالا، پھر عورت مذکور نے اس بکری کے خون سے پتلی وغیرہ کی قسم کی ایک مورت بنا کر تین روز تک سب  مسلمانوں کے گھروں میں  بھجوائی اور حکم دیا کہ اس مورت کو تمام گھروں کی دیواروں سے چھوا کر واپس لے آؤ، چنانچہ مسلمان مذکور نےایسا ہی کیا اور پھر اس عورت نے معہ بکری کےگو شت کے مورت کو ڈنگروں کے راستہ  میں  مدفون کرا کر کہا کہ اب تمہارے ڈنگروں میں  کبھی  دکھ نہیں آنے پاوے گا اور اپنا کچھ مختانہ لےکر اپنے مقام دیرہ کو واپس چلی گئی اور یہ بھی سننے میں  آیا ہے کہ مسلمان مذکور کے  والدین کانکاح بھی نہیں ہوا ہے اور وہ کود بھی زنا کار ہے اور اس نے اپنے دختروں کو ان کےزندہ خاوندوں سے زبردستی چھین کر کسی دوسری جگہ سے سو سو روپیہ لے کر ان کا نکاح کرا دیا، حالانکہ ان کے سابق شوہروں نے انہیں آج تک طلاق نہیں دی تو اب فرماویے کہ اس کے گھر کا کھانا اور اس سے سلام کرنا جائز ہے یانہیں؟

دوسرے یہ کہ وہی شخص بدعتی و شرابی جس کاتذکرہ اوپر ہوچکا ہے،ان لوگوں سےجو ان کے پاس بیٹھنے اور کھانے پینے سے پرہیز کرتے ہیں، یہ کہتا ہے کہ مجھ سے تو تم اتنا پرہیز کرتے ہوں مگر جس امام کے پیچھے تم لوگ نماز پڑھتے ہو، اس کی عورت قوم ہنود سے ہے اور وہ کسی مسلمان کے گھرکی پکی ہوئی چیز نہیں کھاتی اور اب تک امام صاحب سے اس کا نکاح نہیں ہوا اس پر جب لوگوں نے امام صاحب کو بلاکر سب مسلمانوں کے روبرو اس تمام ماجرا کی نسبت دریافت  کیااور یہ بھی پوچھا کہ جب کہ وہ عورت مسلمان ہوچکی ہے پھر آپ کا اس کے ساتھ نکاح نہ ہونے کا کیا باعث، جس پر امام صاحب نے یہ جواب دیاکہ  جو کچھ یہ شرابی بیان کرتا ہے ، سراپا دروغ ہے اس عورت سے میرا  نکاح ہوئے چودہ سال ہوچکے ہیں اور میرے اس نکاح کے گواہ اور و کیل فلاں فلاں شخص فلاں فلاں موضع میں  موجود ہیں، آپ لوگ ان سے بذریعہ خط و کتاب دریافت کرسکتے ہیں۔ باقی رہا یہ امر کہ میں  اور میری عورت  بعض لوگوں کے گھروں کی پکی ہوئی چیزوں کے کھانے سے کیوں پرہیز کرتے ہیں تو اس کے لیے صرف اسی قدر کہہ دینا کافی ہوگا کہ وہ  اور ان کی عورتیں شراب پیتی ہیں، میں  ان کے گھروں کا کھانا وغیرہ جائز نہیں سمجھتا اور گوشت میری عورت کسی بیماری کی وجہ سے نہیں کھاتی کچھ گوشت پر ہی مسلمانی موقوف نہیں۔

اس کے بعد اسی کفر و شرک کرنے والے شرابی شخص نے ایک مولوی صاحب عبدالرحیم نامی ساکن رامپور ضلع سہانپور سے بفرض حصول فتوے  اس مضمون کا سوال لکھ کر بھیجا کہ ایک ایسا شخص جس کی عورت کسی مسلمان کے گھر کا کھانا نہ کھاتی ہو اور اس کا نکاح بھی نہ ہوا ،وہ قابل امامت ہے یا نہیں، مولوی صاحب مذکور نہ بلا تحقیق طرفین کےلکھ دیا کہ ایسے شخص کے پیچھے نماز جائز نہیں ہوسکتی،تاوقتیکہ اس عورت کو کفر سے توبہ کرا کر اس سے نکاح نہ ہوجائے۔ اب چند روز سے ان لوگوں کے جو امام صاحب کے نکاح میں  شامل تھے، جواب آگئے ہیں ، ان سب کا بیان امام صاحب کی تائید میں  ہے اور خطوط پر ان گواہوں کے نام اس طرح ثبت ہیں، گو اہ شد نکاح شہاب الدین ساکن موضع بلاقی والہ ، گو اہ شد نکاح خدابخش سایہ والا، وکیل کا نام مجھے یاد نہیں رہا۔

اس موقع پر کچھ امام صاحب کے اوصاف کی نسبت بھی عرض کردینا چاہتا ہوں ، آپ ابتداء میں  پل چمن پر رہتے تھے، چودہ پندرہ سال سے یہ وہاں سے اُٹھ کر  یہاں ان مواضعات و قریات میں  چلے آئے ۔ جہاں کہ مسلمان بہت کم آباد تھے اور نہ یہاں کوئی مسجد تھی ، اما م صاحب موصوف نے آتے ہی تبلیغ کا سلسلہ شروع کردیا اور بے خبر مسلمانوں کو رفتہ رفتہ سمجھا بجھا کر طریقہ سلام پر لائے۔ آخر مسلمان نماز روزہ سے واقف ہوکر نمازیں پڑھنے  لگے اور بدعت و کفر سے الگ ہوگئے، ازاں بعد امام صاحب  مذکور نے ایک مسجد اور چبوترہ کی تعمیر کے لیے ہندو راجہ سےجو ان مواضعات کے مالک ہیں بذریعہ درخواست منظوری منگوائی۔ چنانچہ لوگوں کے چندوں اور آپ کی سعی بلیغ سے جب سے مسجد تیار ہوگئی ، تب اسلام میں  اور بھی زیادہ رونق اور ترقی ہوتی جاتی ہے۔

اب فرمائیے کہ ایسے پرہیزگار امام کے  پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں، اگر نہیں تو کس آیت یا حدیث سےناجائز ہے اور نیز یہ بھی  لکھیں کہ جو شخص کبھی نماز نہ پڑھتا ہو اور روزہ مرہ شراب پیتا ہو اور شرک و بدعت کے کام کرتا ہوں تو اس سے اس سلام علیکم کرنا اور اس کے گھر کا کھانا کھانا جائز ہے یا نہیں؟

سوال دوم: جوامام نماز جماعت میں  ہرلحظہ کھانسے آیا نماز مکروہ ہوگی یا نہیں؟

سوال سوم: جو شخصامام ہوکر لوگوں کو قیام مولود غزلیات شعر کی رعبت دلائے تو اس امام کے پیچھے نماز پڑھنی جائز ہے یا نہیں اور اگر ہے تو کس دلیل سے اور کون سی حدیث سے معہ حوالہ کتب حدیث  و روایت و آیات کے تحریر فرمایئے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام مذکور کے پیچھےنماز بلا شبہ جائز و درست ہے ، ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے ، جو شخص ایسے امام کے پیچھے نماز کو ناجائز بتائے وہ جاہل ہے اور جو شخص نہ کبھی روزہ رکھتا ہو اور نہ نماز پڑھتا ہو اورروز مردہ شراب پیتا ہو اورشرک و بدعت کے کام کرتا ہو تو اس سے سلام و کلام کاترک کردینا جائز ہے۔ مشکوٰۃ شریف میں  ہے۔ عن نافع ان رجلا اتی ابن عمر فقال ان فلانا یقرأ علیک السلام فقال انہ بلغنی انہ قد راحدث فان کان قد احدث فلا تقرئہ منی  السلام الخ رواہ الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ وقال ہذا حدیث حسن صحیح غریب امام نووی لکھتے ہیں: وردت الاحادیث بھجران اھل البدع والفسوق و منا بژی السنۃ وانہ یجوز ھجر انھم دائما والنہی عن الھجران فوق ثلاث لیال انما ھو لمن ھجر لحظ نفسہ و معائش الدنیا واما ھجران اھل البدع و نحوھم فھودائم انتہی۔ اور ایسے شخص کے یہاں کھانا کھانا اور اس کی دعوت قبول کرنا نہیں چاہیے کیونکہ فساق کی دعوت قبول کرنے سےممانعت آئی ہے۔

جواب سوال دوم:

ہر لحظہ کھانسنا اگر عذر کی وجہ سے ہے تونماز میں  کچھ کراہت نہیں آئے گی اور اگر بلاعذر ہے تو ظاہر ہے کہ نماز کے اندر بلا عذر اور بلا ضرورت ہر لحظہ کھانسانا محض لغو حرکت ہے اس سے نماز کامکروہ ہونا کیا معنی نماز کے فاسد ہونے کا خوف ہے، واللہ اعلم بالصواب

جواب سوال سوم:

قیام مولود و غزلیات منجملہ بدعات کے ہے بلکہ اگر اس اعتقاد سے قیام کرے کہ ذکر ولادت کے وقت رسول اللہﷺ حاضر ہوتے ہیں تو کفر تک نوبت پہنچ جاتی ہے پس ایسے بدعتی امام کے پیچھے اقتداء کرنے سے احتراز چاہیے۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔

حرر ہ عبدالحق ملتانی                                                                  (سیدمحمد نذیر حسین)


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ