یہ مجالس میلاد جو ہمارے شہروں میں ہوتی ہیں جائز و مستحب ہیں یا بدعت و مکرہ؟ بیان فرمائیں۔
یہ مجالس میلاد مکروہ و بدعت ہیں۔ ان کے انعقاد پر کتاب وسنت ، اجماع و قیاس سے کوئی بھی دلیل نہیں ہے اور جو کام اس طرح کا ہو، وہ بدعت سیئہ اور نامشروع ہے اور اس کا ادنیٰ درجہ مکروہ ہے۔ ابن حاج نے اپنی کتاب ’’مدخل‘‘ میں لکھا ہے، ’’ان بدعات سے جن کو اکثر لوگ عبادت اور شعائر اسلامی سمجھتے ہیں، ربیع الاوّل کے مہینہ میں مجالس میلاد کا انعقاد ہے اس میں کئی طرح کی بدعتیں اور حرام امور ہیں‘‘ اور تاج الدین فاکہانی نے اپنے رسالہ میں لکھا کہ ’’اس میلاد کا کوئی اصل نہ تو کتاب وسنت میں ہے اور نہ سلف صالحین سے منقول ہے بلکہ یہ بدعت ہے ، جس کو باطل پرستوں اور پیٹ کی پوجا کرنے والوں نے ایجا دکیا ہے۔ (سید نذیر حسین)
یہ جواب بالکل صحیح ہے، مجدد الف ثانی نے اپنے مکتوب صفحہ 273 میں مرزا حسام الدین کو لکھا ہے ’’انصاف کی نگاہ سے دیکھو اگر ایسی مجلس آنحضرتﷺ کی موجودگی میں منعقد ہوتی تو حضور اس کو پسند فرماتے یا نہ۔ اس فقیر کا یقین ہے کہ آپ اس کوکبھی پسند نہ فرماتے بلکہ اسے رد کردیتے۔ (محمدمسعود نقشبندی)