سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(53) ڈرانا نہ ڈرانا برابر ہے تو کافروں کو وعظ بیکار ہے

  • 554
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 976

سوال

(53) ڈرانا نہ ڈرانا برابر ہے تو کافروں کو وعظ بیکار ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سورۃ بقرہ میں اللہ تعالی نے فرمایا:۔

﴿إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ سَوَآءٌ عَلَيۡهِمۡ ءَأَنذَرۡتَهُمۡ أَمۡ لَمۡ تُنذِرۡهُمۡ لَا يُؤۡمِنُونَ ﴾--سورة البقرة 6

’’کافروں کو آپ کا ڈرانا، یا نہ ڈرانا برابر ہے، یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے‘‘

اس کے آگے ہے ۔

﴿خَتَمَ ٱللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمۡ وَعَلَىٰ سَمۡعِهِمۡۖ وَعَلَىٰٓ أَبۡصَٰرِهِمۡ غِشَٰوَةٞۖ وَلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيمٞ ٧﴾--سورة البقرة 7

’’اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر کر دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پرده ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے‘‘

اس آیت سے ظاہرہے کہ زمین وآسمان کاٹل جاناممکن ہے مگران کا ایمان لانا ناممکن ہے مگر تاریخ بتا رہی ہے۔ کہ حضرت رسول  کریمﷺ فوت نہیں ہوئے کہ وہ سب منکرین حضور پر ایمان لے آتے ہیں۔ جب یہ مسلمہ امر ہے کہ تمام اہل مکہ اور مدینہ حضور پر ایمان لے آئے تو پھرختم اللہ علی قلوبہم کا کیامعنی ہے۔؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ ختم کےمعنی ہمیشہ کے واسطے مسدود کر دینامنقطع کردینا کہاں سے نکالے گئے۔ قرآن مجیدمیں ختم کے مشتقات مختلف مقامات میں استعمال ہوئے ہیں۔ مگر ایک جگہ بھی اس معنوں میں استعمال نہیں ہوئے تفسیرالقرآن بالقرآن کے اصول پر جب اس آیت الیوم نختم کوہم وسیق الذین کفروا الی جہنم زمرا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ کہ قیامت کے روز جب جہنم کے چوکیدار جہنمیوں سے دریافت کریں گے کہ کیا تمہارے پاس رسول نہیں آیا تھا توالیوم نختم کے قول کے خلاف نظر آرہے ہیں۔ علاوہ ازیں نختم علی قبلک یطیع علی قلبک بھی قرآن مجیدمیں ہے جس سے ثابت ہوا کہ طبع اورختم مترادف الفاظ ہیں۔ پھر ختم کےمعنی ہمیشہ کے لیے مسدودکرنا کہاں سےنکالے گئے۔ جزاكم الله خيرا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

اس سوال کا حل اختصار کے ساتھ ہم عرض کرتے ہیں۔ تفصیل دیگر علماء پرچھوڑتے ہیں۔ سائل نے مابعد کی آیات دیکھی ہیں ماقبل کی نہیں دیکھی۔ اس سے قبل خدا فرماتاہے ہدی للمتقین ۔یعنی قرآن مجید پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔ پرہیز گاروں سے مراد یہاں وہ ہیں جن کا خاتمہ پرہیزگاری پر ہونے والاہے۔ کیونکہ اعتبار خاتمہ کا ہے۔ پہلے خواہ کوئی حالت ہو۔ اگرساری عمر پرہیزگاری میں گزری ہو اور مرنے کے قریب مرتد ہوگیا ہو تو اس کی پہلی پرہیزگاری فائدہ نہیں دے سکتی ۔

قرآن مجیدمیں ہے :

﴿وَمَن يَرۡتَدِدۡ مِنكُمۡ عَن دِينِهِۦ فَيَمُتۡ وَهُوَ كَافِرٞ فَأُوْلَٰٓئِكَ حَبِطَتۡ أَعمَٰلُهُمۡ فِي ٱلدُّنۡيَا وَٱلۡأٓخِرَةِۖ وَأُوْلَٰٓئِكَ أَصحَٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمۡ فِيهَا خَٰلِدُونَ ٢١٧﴾ًََََََ--سورة البقرة 217

’’اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں اور اسی کفر کی حالت میں مریں، ان کے اعمال دنیوی اور اخروی سب غارت ہوجائیں گے۔ یہ لوگ جہنمی ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں ہی رہیں گے‘‘

اس آیت سے معلوم ہوا کہ پہلے خواہ مدت دینداری اور پرہیزگاری میں گزرجائے تو اس کا کوئی اعتبارنہیں۔ اسی طرح اگر پہلے کفر کی حالت ہو اور اخیرمیں تائب ہوجائے تو اس کے متعلق بھی خداتعالی کاارشادہے ۔

﴿فَأُوْلَٰٓئِكَ يُبَدِّلُ ٱللَّهُ سَيِّ‍َٔاتِهِمۡ حَسَنَٰتٖۗ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورٗا رَّحِيمٗا ﴾--سورة الفرقان 70

’’ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے‘‘

پس جب مدارخاتمہ پرہوا اور اس آیت سے وہی مراد ہوئے جن کا خاتمہ پرہیزگاری پر ہونے والاہے تو ان الذین کفرواسے مرادبھی وہی کافر ہوں گے جن کا خاتمہ کفر پر ہونیوالا ہے۔ جوخدا کے ہاں ابلیس کی طرح ازلی شقی ہیں۔ پس ان کے حق میں ختم سے مراد یہی ہوگا کہ ان کا راستہ ہمیشہ کے لیے مسدودہے اور ختم کے معنی ہمیشہ ایک نہیں ہوتے۔ بلکہ جیسا مقام ہے ویسے ہوتے ہیں۔ یہاں چونکہ ارشادہے کہ ان لوگوں کو ڈرانا نہ ڈرانا یکساں ہے یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اس لیے یہاں یہی مراد ہوگی کہ ان کے لیے ہدایت کا راستہ مسدودہے۔ اوریہ ازلی شقی ہیں۔ پس اب کسی قسم کا اعتراض نہیں رہا کیونکہ اگر مکہ والے یا دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے لیے ہدایت کا راستہ مسدودنہیں ہوا اور وہ ازلی شقی ہوکر ان الذین کفرواالایة کے تحت داخل نہ تھے بلکہ ہدی للمتقین کے تحت تھے۔ پس ان کوہدایت ہونی ضروری تھی۔

بعض مفسرین نے لکھاہے کہ ان الذین کفروا سے ابوجہل وغیرہ خاص کافر مراد ہیں۔ اوران الذین کفروا میں موصول کی تعریف عہدخارجی کی قسم سے ہے۔ چنانچہ بیضاوی وغیرہ میں اس طرح لکھا ہے۔ پس اس صورت میں بھی کوئی جھگڑا نہیں رہتا۔ کیونکہ اگر مکہ مدینہ والے ایمان لائے ہیں۔ تو خاص خاص لوگ جو اس آیت سے مراد ہیں۔ جیسے ابوجہل وغیرہ ان کو ایمان نصیب نہیں ہوا بلکہ وہ کفر کی حالت میں رخصت ہوگئے۔ پس آیت اپنی جگہ ٹھیک رہی اورختم کے معنی بھی یہی  ہوئے کہ ان کے لیے ہدایت کا دروازہ ہمیشہ کےلیے مسدودہے۔ خداتعالی اس حالت سے بچائے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اہلحدیث

کتاب الایمان، مذاہب، ج1ص130 

محدث فتویٰ

 

تبصرے