مصافحہ بالتخصیص بعد نماز جمعہ یا عیدین کے غیر وقت ملاقات کے کرنا رسول اللہﷺ اور صحابہ اورتابعین اور تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین سے ثابت ہے یانہیں اور اس کا کیا حکم ہے اور محققین حنفیہ نے اس کو کیالکھا ہے۔
مصافحہ وقت لقا کے حضرتﷺ اور اصحاب کرام سے ثابت ہے اور بالتخصیص بعد نماز جمعہ اور عیدیں کے بدعت ہے،کسی حدیث سے ثابت نہیں اور ائمہ دین سے بھی منقول نہیں، جیسا کہ شیخ ابن الحاج نے مدخل میں لکھا ہے ۔ وموضع [1]المصافحۃ فی الشرع انما ھو عند لقاء مسلم لا خیہ لا فیادبار الصلوۃ فحیث و ضعہا الشارع لا یضعہا فینی عن ذلک و لیز جرفا علہ لما اتی بہ خلاف السنۃ انتہی اور شیخ احمد بن علی رومی مجالس الابرار میں فرماتے ہیں، اما[2] المصافحۃ فی غیر حلال الملاقاۃ مثل کونہا عقیب صلوۃ الجمعۃ والعیدین کما ھو العادۃ فی زماننا والحدیث سکت عند فیبَی بلادلیل وقد تقرر فی موضعہ ان مالادلیل علیہ فہو مردود و لا یجوز التقلید فیہ انتہی۔
اور شیخ عبدالحق نے شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے کہ آنکہ بعضے مردم مصافحہ می کنند بعد از نماز عید یا بعد از جمعہ چیزے نیست ، وبدعت است از جہت تخصیص وقت ، اسی طرح ملاعلی قاری نے شرح مشکوٰۃ میں اور ابن عابدین نےرد المختار میں لکھا ہے۔
حررہ ابوالطیب محمد شمس الحق عفی عنہ (سید محمد نذیر حسین)
[1] مصافحہ کرنے کامقام مسلمان بھائی سےملاقات کرنے کاوقت ہے نہ کہ نماز کے بعد اگر کوئی آدمی ایسے مقام پرمصافحہ کرے گا جہاں شارع نے نہیں بتایا تو اس کے فاعل کو روکا جائے کیونکہ اس نےسنت کے خلاف کیا ہے۔
[2] ملاقات کےوقت کے علاوہ اور کسی وقت مثلاً جمعہ یا عیدین کے بعد مصافحہ کرنا جیساکہ ہمارے زمانہ میں عادت ہوچکی ہے۔ حدیث اس سے خاموش ہے اور اپنی جگہ پر یہ ثابت ہے کہ جس کام پر دلیل نہ ہو، وہ مردود ہے اور اس میں تقلید جائز نہیں ہے۔