کیا حکم ہے ان رسوم کا کہ نوشے کے گلے میں ہارڈالاجاتا ہے اور نکاح کے بعد مصافحہ ہوتا ہے، نوشہ حاضریں مجلس کو سلام کرتا ہے، اپنے خسر کے پاؤں کو بوسہ دیتاہے اور شب زفاف کے بعد آرسی اور مصحف کی رسم کے بعد دولہا دلہن کے اقارب ایک دوسرےکے سامنے بیٹھتے ہیں ۔ ایک دوسرے کو رومالوں کا تحفہ دیتے ہیں اور دولہا اُٹھ کر ہر ایک کو سلام کرتاہے اور جمعہ کے دن دولہا کو اپنی ساس کے پاس بلایاجاتا ہے ۔ اس رسم کو جمعگی کہتے ہیں، آیا یہ رسوم شریعت سے ثابت ہیں یا نہیں ان کامرتکب سنی ہے یا بدعتی اور جو ان رسوم کو ادانہ کرے، اس کو ’’شریعت والا‘‘ کا طعنہ دیناکیسا ہے، جواب فوراً عطا فرما کر ممنون فرمائیں۔
اہل علم جانتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ اور تین بہترین زمانوں میں ان رسوم کا نام و نشان نہ تھا۔نکاح ہوتے تھے۔ خطبہ اور حق مہر ہوتا تھا، بحکم حدیث ’’جو ہمارے دین میں نیا کام نکالے وہ مردود ہے‘‘ یہ کام بھی مردود ہیں ۔ تبع سنت کو ایسی بد رسموں سے پرہیز کرنا چاہیے کہ ان میں سے کوئی بھی شریعت سے ثابت نہیں ہے ۔ لوگوں کے طعن و تشنیع کے خوف سے خدا کی ناراضگی نہ لینا چاہیے۔ سلام اورمصافحہ ملاقات کے لیے تو مسنون ہے ۔ حاضرین مجلس کے لیے منع ہے اور پاؤں کو بوسہ دینا مشرکوں کی رسم ہے اور شرک ہے۔ واللہ اعلم۔ (سیدمحمد نذیرحسین)