(1) شادی بیاہ میں راگ رنگ اور تماشہ، آتشبازی اور زیب و زینت جائز ہے یا حرام؟
(2) ان کا ارتکاب کرنے والےکیسے ہیں؟
(3) ایسی مجلسوں میں مسلمانوں کو شریک ہونا جائز ہے یانہیں؟ اگر کوئی نادانستہ چلا جائے تو پھر اس میں شامل رہے یا واپس آجائے۔
(4) اگر کوئی مولوی یاپیرایسی مجلس میں چلا جائے کہ لوگ اس کی سند لیتے ہوں اور اس سے دلیل طلب کی جائے تو وہ جواب میں کہے اس کی دلیل خود میری زبان ہے، ایسا آدمی کیسا ہے؟ اس کے پیچھے نماز پڑھنی جائز ہے یا نہیں؟
(1) شادی میں راگ رنگ اورآتشبازی وغیرہ منع ہے ۔ عقبہ بن عامر نے آنحضرتﷺ کو فرماتے سنا، اللہ تعالیٰ ایک تیر کی وجہ سے کئی ادمیوں کو جنت میں داخل کرتے ہیں، اس میں یہ بھی ہے کہ تمام کھیل ناجائز ہیں، سوائے تیر اندازی اور گھوڑے کو کرتب سکھانے اور اپنی بیوی سے کھیلنےکےکہ یہ تینوں کھیل جائز ہے، شاہ عبدالعزیز نے اپنی تالیفات میں ممنوع رسوم کے ضمن میں لکھا ہے ’’آتشبازی کرنا، دولہا کو گھوڑے پر سوار کرا کے شہر کے گرد چکر لگانامنع ہے۔ اللہ تعالیٰ تعالیٰ نےفرمایا ہے۔ ’’ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو اپنے گھروں سے فخر اور ریا کی نیت سےنکلے‘‘ باجے بجانا،دیواروں پر پردے لٹکانا، اجنبی عورتوں کا دولہا کے پاس آکر باتیں کرنا، اس کے ناک کان مروڑنا،اور دلہن کے جسم پر شیرینی رکھ کر دولہا کو کہناکہ اس کو اپنے منہ میں اٹھاؤ اور خلوت کے وقت دولہا دلہن کو عورتوں مردوں کا گھیر لینا سب حرام بدعات ہیں۔
مولانای محمد اسحاق دہلوی اپنے رسالہ اربعین میں لکھتے ہیں ، آتشبازی اسراف ہے اور اسراف حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کانافرمان ہے۔
(2) ان کے مرتکب بدعتی ، فضول خرچ اورگنہگار ہیں۔
(3) ایسی مجلسوں میں خواہ وہ ولیمہ ہی کی کیوں نہ ہوں، تمام مسلمانوں کو خواہ وہ مقتدا ہوں یادوسرے عوام شامل ہونا جائز نہیں ہے، اگر نادانستہ چلے جائیں تو واپس آجائیں۔
مسائل اربعین میں ہے کہ اگر جانے سے پہلے علم ہوجاوے تونہ جائے اور اگر جانے کےبعد وقوع میں آجائیں تو اگر مقتدا ہو ،اور روک سکتا ہو تو رد کے اور دعوت ولیمہ میں شامل ہو،اور اگر عام آدمی ہو، روک نہ سکتا ہوں تو وہ ایک بدعت کے لیےسنت نہ چھوڑے،شرح وقایہ میں بھی ایسا ہی لکھا ہے اورمثال دی ہے کہ جیسےکوئی جنازہ پڑھنا جس کے ہمراہ کوئی نوحہ کرنے والی ہو، نہیں چھوڑ دینا چاہیے لیکن عامی کو بھی ایسی چیزوں کو دل سے بُراسمجھنا چاہیے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے، احناف کا یہی مذہب ہے۔
ابن حجر کہتے ہیں، کہ اگر کوئی ایسی بےہودگی ہو، جس میں اختلاف ہے تو اس میں حاضر ہونا جائز ہے اور نہ جانا بہتر ،اور اگر حرام ہے مثلاً شراب نوشی، تو اگر اس کو روکنے کی طاقت ہو ، تو ضرور جاکر روکے اور اگر روک نہ سکتا ہو تو شافعیہ کا مسلک یہ ہے کہ جائے اور حسب طاقت انکار کرے اور اگر نہ جائے تو بہتر ہے۔ عراق کے شافعی اسی کے قائل ہیں، مرو کے شافعی کہتےہیں کہ ہرگز نہ جائے اور اگر علم نہ ہو تو چلا جائے،جانے کے بعد وقوع میں آئے، تو اس پر انکار کرے ورنہ واپس آجائے۔
آنحضرتﷺ نے فاسق کے گھر کا کھانا کھانے سےمنع فرمایا ہے ، نسائی کی روایت میں ہے کہ جو آدمی خدا پر ایمان رکھتا ہو، وہ ایسے دستر خوان پرنہ بیٹھے جس پر شراب نوشی ہو، حضرت علی کہتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ آنحضرتﷺ کے لیےکھانا تیار کیا، آپ نے گھر میں تصویریں دیکھیں تو واپس چلے گئے۔ حضرت فاطمہ نے روکنے کی کوشش کی تو آپ نے فرمایا، نبی تصویر والے گھروں میں داخل نہیں ہوسکتا۔
ابو مسعودؓ کہتے ہیں، کہ ایک آدمی نے آپؐ کی دعوت کی ، آپ نے پوچھا، اس گھر میں تصویریں ہیں، اس نےکہا،ہاں! آپ نے فرمایا تصویریں توڑ پھوڑ دو گے تو آجاؤں گا۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے ابوایوب کی دعوت کی انہوں نے گھر کی دیواروں پر پردے دیکھے ، تو روٹی کھائے بغیرواپس آگئے اور کہا آپ سے یہ توقع نہ تھی ۔ انہوں نےکہا عورتوں نے زبردستی لٹکا دیئے، کہنے لگے، آپ سے یہ امید بھی نہ تھی۔ ان روایات سے معلوم ہواکہ مروزی شوافع کا عمل درست ہے، قرآن مجید میں بھی آیا ہے کہ یاد آجانے کے بعد ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھو۔ واللہ اعلم۔
(5)ایسا آدمی فاسق ہے اگر کوئی اتفاقی نماز اس کے پیچھے پڑھ لی جائے تو ٹھیک ہے ، ورنہ ایسے آدمی کو امام نہیں بنانا چاہیے۔ واللہ اعلم۔
(سید محمدنذیر حسین)