کیافرماتے ہیں، علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جب عورتوں کے اولاد پیداہوتی ہے تو مولود کاناڑاکاٹ کر اسی گھر میں جہاں وہ پیدا ہوا ، دفن کرتے ہیں اور کچھ چھلے وغیرہ آگ میں جلاتے ہیں اور مولود کو سو پیلا یعنی چھاج میں لٹاتے ہیں، سو یہ درست ہے یا نہیں؟
(2) جب عورتوں کے اولاد پیدا ہوتی ہے تو سوامہینہ کنویں پر جانا اور اس کو چھونا بُراجانتی ہیں، جب خون نفاس سے فارغ ہوتی ہیں اور تاریخ ولادت سے چالیس روز گذر جاتے ہیں توکنویں پرجاتی ہیں اور کنویں میں خواجہ خضر کو سمجھ کر تھوڑا سیندور اور چاول اور سرسوں اس کنویں پر رکھتی ہیں، بعد ازاں پانی بھر کر چلی آتی ہیں، اس کو کنواں چھوناکہتے ہیں تو اس کانکاح باقی رہا یا نہیں اور یہ رسم کیسی ہے؟
(3) جو عورت ایسا کام کرے کہ اس کا نکاح ٹوٹ جائے،تو اس پرطلاق رجعی عائد ہوئی یا بائن اور وہ عورت کس صورت سے اسی شوہر کے نکاح میں آسکتی ہے؟
(4) ایک آدمی نے اپنی عورت کو اسقاط حمل کی دوا دی، اس کا حمل گر گیا تو وہ شخص گہنگار ہوگا یانہیں؟
(5) یا اپنی عورت کو ایسی دوا دیتا ہے کہ جس سے حمل نہ رہے اور وہ بانجھ ہوجائے درست ہے یا نہیں فقط۔
جواب سوال اوّل،
یہ رسم نا درست و ناجائز ہے۔ اس واسطے کہ محض بے اصل ہے اس کی شرع سے کوئی سند نہیں ہے اور مولود کو سو پیلا میں لٹانا بھی نہیں چاہیے کیونکہ عوام اس فعل کو اس غرض سے کرتے ہیں کہ اس سے مولود زندہ رہے گا لہٰذا اس فعل سے اجتناب چاہیے۔
جواب سوال دوم:
یہ رسم بالکل جہالت و ضلالت کی رسم ہے اس سے بھی احتراز و اجتناب لازم ہے، سوا مہینہ تک کنویں پر جانے کو اس خیال سےبُرا سمجھنا کہ کنویں میں خواجہ خضر رہتے ہیں، عقل اور نقل دونوں کے خلاف ہے ، عقل کے خلاف اس وجہ سے ہے کہ جب ایک خاص کنویں میں حضرت علیہ السلام کا وجود مانا جاوے گا تو اور کنوؤں میں بھی ان کا وجود ضرور ماننا پڑے گا ، ورنہ تخصیص بلا مخصص لازم آوے گی اور جب دیگر کنوؤں میں بھی خضر کا وجود مانا جاوے گاتو بہت سے خصر کا ہونا لازم آئے گا، کیونکہ شخص واحد کا ایک وقت میں امکنہ متعددہ میں ہونا محال ہے اور حسب تعداد کنوؤں کے بہت سے خضر کا ہونا اورحسب کمی وبیشی کنوؤں کے خضر کا کم و بیش ہونا بالکل خلاف عقل ہے اور خلاف نقل اس وجہ سے ہے کہ کسی نقلی دلیل سے خضر علیہ السلام کا کنویں میں ہونا ثابت نہیں، بلکہ کسی دلیل صحیح سے اب ان کاموجود ہونا ہی ثابت نہیں، بلکہ صحیح بخاری کی اس حدیث سے خضر علیہ السلام کازندہ نہ ہونا صاف طور پر ثابت ہوتا ہے۔
عن [1]عبداللہ بن عمرؓ قال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلوٰۃ العشاء فی اخرحیاتہ فلما سلم قام النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال ارأیتکم لیلتکم ھذہ فان رأس مائۃ سنۃ لا یبقی ممن ھو الیوم علی ظہرالارض احد الحدیث ۔غرض حضرت خضر علیہ السلام کو کنویں میں سمجھنا اور تاریخ ولادت سے سوا مہینہ تک کنویں پر نہ جانا اور اس کے چھونے کو بُرا سمجھنا اور چالیس دن گزر جانے کے بعد سیندور وغیرہ کنویں پررکھنا نہایت بُری رسم ہے اور سراسر جہالت اور ضلالت کی بات ہے، جوعورت یہ کنواں کی رسم کرے گی وہ بلا شبہ گنہگار ہوگی، مگر ہاں اس رسم سے اس کا نکاح نہیں ٹوٹے گا۔
جواب سوال سوم:
جوعورت ایسا کام کرے کہ جس کی وجہ سے اس کا نکاح ٹوٹ جائے تو اس پر طلاق عائد نہیں ہوتی ہے نہ بائن اور نہ رجعی اور وہ عورت اگر پھر اپنے شوہر کے نکاح میں آنا چاہے تو اس کو چاہیےکہ اس کام سے توبہکرے اور پھر اس سےنکاح کرلے۔
جواب سوال چہارم:
اگر نفخ روح کے بعد اسقاط حمل کی دوا دی اور حمل گر گیا تو وہ بلاتفاق گنہگار ہوگا اور بہت بڑا گنہگار ہوگا اور قبل نفخ روح کے اسقاط حمل کی دو دی اور حمل گر گیا تو اس صورت میں جن علماء کے نزدیک عزل ناجائز ہے ان کے نزدیک وہ شخص گنہگار ہوگا اور جن علماء کے نزدیک عزل جائز ہے ا ن کے نزدیک گنہگار نہیں ہوگا۔ حافظ ابن حجرفتح الباری میں لکھتے ہیں:
ینتزع [2]من حکم العزل حکم معالجۃ المرأۃ اسقاط النطفۃ قبل نفخ الروح فمن قال بالمنع ھناک ففی ھذہ اولی ومن قال بالجواز یمکنہ ان یقول فی ھذہ ایضا بالجواز ومن قال بالجواز یمکنہ ان یفرق بانہ اشدلان العزل لم یقع فیہ تعاطی السبب و معالجۃ السقط بعد السبب انتہی قال ابن الہمام فی فتح القدیر یباح الاسقاط مالم یتخلق وفی الخانیۃ لا اقول انہ یباح الاسقاط مطلقا فان المحرم اذا کسر بیض الصید یکون ضامنا لا نہ اصل الصید فاذا کان ھناک مع الجزائ ثم فلا اقل ان یلحقہا اثم طہنا اذا اسقطت من غیر عذر وقال فی البحر ینبغی الاعتماد علیہ لان لہ اصلا صحیحا یقاس علیہ والظاہر ان ھذا المسئلۃ لو تنقل عن ابی حنیفۃ صریحا ولذا یعبرون بقالوا انتہی۔
جواب سوال پنجم:
ایسی دوا دینا جس سے حمل نہ رہے حکم میں اسقاط قبل از نفخ روح کے ہے پس جن کے نزدیک وہ جائز ہے ، یہ بھی جائز ہے اور جن کے نزدیک وہ جائز نہیں، یہ بھی جائز نہیں، حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں۔ یلحق [3]بھذا المسئلۃ تعاطی المرأۃ ما یقطع الاصل من اصلہ فقد افتی بعض المتاخرین من الشافعیۃ بالمنع وھومشکل علی قولھم باباحۃ العزل مطلقا انتہی۔ واللہ تعالیٰعالم بالصواب۔
حرررہ عبدالرحیم عفی عنہ (سید محمد نذیر حسین)
[1] عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے اپنی آخری زندگی میں ایک عشاء کی نماز پڑھائی۔ آپ سلام پھیرنے کے بعد کھڑےہوئے اور فرمایا کہ آج کی رات مجھے معلوم ہواکہ آج سے سو سال بعد تک آج کی دنیا کا کوئی انسان موجود نہ رہے گا۔
[2] عزل کے حکم سے یہ مسئلہ معلوم ہوتا ہے کہ جان پڑنے سے پہلے عورت کاحمل گرا دینا بھی جائز ہے اورجوعزل کو ناجائز سمجھتے ہیں اُن کے نزدیک حمل گرانا بالاولی ناجائز ہے اور جوعزل کو جائز سمجھتے ہیں وہ اس کو بھی جائز سمجھتے ہیں اور جو عزل کوجائز سمجھتے ہیں وہ اسقاط کو ناجائز بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ عزل میں سبب ممانعت کوئی نہیں ہے اور یہاں سبب موجو دہے ۔ ابن الہمام نے فتح القدیر میں کہا ہےکہ جب تک جان نہ پڑے حمل کا گرا دینا جائز ہے اورخانیہ میں ہے کہ اسقاط حمل کو مطلقاً مباحکہنا درست نہیں ہے کیونکہ مجرم اگر کسی پرندہ کا انڈا توڑ ڈالے تو اس پر ضمان ہے کیونکہ وہ شکارکا اصل ہے اور جس صورت میں وہاں جزا کے باوجود گناہ بھی ہوتا ہے تو بغیرعذر آدمی کے حمل کوگرا دینا اس سے کم تو نہیں ہوگا۔بحرمیں کہاکہ خانیہ کی روایت پر اعتماد کرنا چاہیے اور ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ امام ابوحنیفہ سے ثابت نہیں ہے اسی لیے تو اسے ’’قالوا‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔
[3] اس مسئلہ کے ساتھ یہ بھی ملحق ہے کہ عورت حمل گرانے کے لیے دوائی استعمال کرے۔ شافعیہ میں سے بعض متاخرین نے اس سےمنع کیاہے لیکن عزل کے جواز کا فتویٰ دے کر اس سےمنع کرنا مشکل ہے۔