سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(17) عامی اور غیر عامی پر جو درجہ اجتہاد کو نہیں پہنچا ہے..الخ

  • 5524
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1522

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ غیر مقلد کی نماز مقلد کے پیچھے ہوتی ہے یا نہیں او رمقلد کی نماز غیرمقلد کے پیچھے ہوتی ہے یا نہیں؟

(2) تقلید امام اعظم کی کرنا شرک ہے یا نہیں؟

ماقولکم رحمکم اللہ تعالی عامی اور غیر عامی پر جو درجہ اجتہاد کو نہیں پہنچا ہے، ایک مذہب کی تقلید کرنا واجب ہے یا نہیں او رجس پرتقلید واجب ہے اگر وہ ایک مذہب معین کی تقلید نہ کرے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے کہ نہیں اور اس کے ساتھ کھانا، پینا او رشادی کی رسم جاری رکھنا درست ہے یا نہیں۔ بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ماہران شریعت  غرا پرمخفی نہیں کہ جوشخص مومن باللہ والیوم الآخر اور تصدیق ماجاء بہ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من ضروریات الدین و غیرھا من الفروعات الشرعیۃ خالصا( نبی ﷺ نے جو ضروریات دین بتلائی ہیں اور شریعت کے فروعات بتلائے ہیں ان کی تصدیق کرتا ہوں) رکھتا ہو، او رہر صورت سے پابند شرع ہو یعنی  حلال کو حلال اور حرام کو حرام جانتا ہو، پس بے شک وہ شخص مسلمان متقی اور اس آیت کریمہ کا مصداق ہے، لیس [1]البران تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البرمن امن باللہ والیوم الاخر والملائکۃ والکتاب والنبیین (الی آخر) اولئک الذین صدقوا و اولئک ھم المتقون الآیۃ اولئک علی ھدی من ربھم واولئک ھم المفلحون وغیرہا من الایات القرانیۃ۔ وعن ابن عباس بن عبدالمطلب قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذاق طعم الایمان من رضی باللہ رباوبا لاسلام دینا وبمحمد رسولا رواہ مسلم۔ وعن انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من صلی صلوتنا و استقبل قبلتنا واکل ذبیحتنافذلک المسلم الذی لہ ذمۃ اللہ و ذمۃ رسولہ فلا تخفروا اللہ فی ذمتہ رواہ البخاری کذا فی المشکوٰۃ۔

فی الجملہ جو شخص موصوف بصفات دین اسلام او راحکام شرع پربطریق اہل سنت کاربند ہو ، وہ اگرچہ ایک مذہب معین کامقلد نہ ہو،  خواہ عامی ہو یا غیرعامی کہ درجہ اجتہاد کو نہ پہنچا ہو، سو وہ شخص مذکور خاصہ مسلمان اور شریعت محمدیہ کا متبع ہےاز روئے شرع شریف اس کی مسلمانی میں کسی طرح کا عیب و نقصان متصور نہیں ہوسکتا، بہرحال وہ شخص بمقتضائے اس آیت کریمہ  فان[2] تابوا واقاموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ فاخوانکم فی الدین کے برادر دینی ہے، گو مذہب معین کا التزام نہ رکھتا ہو، پھر جو کوئی اس کو بُرا کہے اور شادی غمی میں اس سے نفرت و عداوت کرے او رنہ ملے، وہ فاسق و مخالف کتاب و سنت اور مبتدع متعصب اغلظ ہے،ایسےمتعصب بدعتی  اغلظ سے ملنا ترک کرے کیونکہ برضا و رغبت مبتدع سے ملنا ہدم اسلام کا موجب ہے جیسا کہ اس مضمون کی حدیث مشکوۃ وغیرہ میں وارد ہے کیونکہ تقلید شخصی او رالتزام مذہب معین پرشارع کا حکم اور خطاب صادر نہی ہواپس جس عقیدہ پرخدا اور رسول کا حکم ناطق نہ ہو، وہ عقیدہ اور عمل مردود اور قبیح ہوتا ہے ۔ قال[3] اللہ تعالیٰ ومن یبتغ غیر الاسلام دینافلن یقبل منہ وقال [4]اللہ تعالیٰ ما انزل اللہ بھا من سلطان ان الحکم الا للہ الایۃ ولیس[5] لغیر اللہ حکم واجب القبول والامر واجب الالتزام بل الحکم والامرو التکلیف لیس الالہ انتہی ما فی التفسیر الکبیر والنیشا پوری۔

اور سارے اہل اصول حکم کے معنے شرعاً اس طرح پر لکھتے ہیں: الحکم [6]خطاب اللہ تعالیٰ المتعلق بفعل المکلف اقتضاء ای طلبا وھو اما لطلب الفعل حتما او غیرہ او طلب الترک کذلک او تخییرا ای اباحۃ کذا فی مسلم الثبوت فی علم الاصول قالوا انثبت الطلب الجازم القطعی لفعل غیر کف  فالفرض او الفعل کف فالحرام وان ثبت الطلب لفعل غیر کف بدلیل ظنی فیہ شبہۃ فالواجب او کف فکراھۃ التحریم وان لم  یکن الطلب جازمابل راحجا فاما ان یکون لفعل غیر کف کالندب او کف فکراھۃ التنزیہوان لم یکن الطلب اصلا بل یکون تخییرا بین الفعل وعدمہ فاباحۃ کذا فی شرح المسلم وغیرھا من کتب الاصول۔

پس تقلیدشخصی نہ اقتضا میں داخل ہے، نہ تخییر یعنے اباحت میں لان [7]الاباحۃ ای ما یکون فعلہو ترکہ متساو یین حکم شرعی لان الاباحۃ من الاحکام ولا حکم الابالشرع فثبت کون الاباحۃ حکما شرعیا لانہ ای الاباحۃ خطاب الشرع والخطاب حکم شرعی تخییرا ای من الخطاب التخییریکذا فیمسلم الثبوت و شروحہ۔

اور جب تقلید شخصی خطاب شرع او رتکلیفات شرعیہ میں داخل نہ ہوئی تو اقتضاً نہ تخییرا  پس بدعت مذمومہ ہے۔ کما [8]قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھورد۔وقال رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھورد کما رواھما البخاری فی صحیحہ۔ اسی نظر سےفاضل جلیل  علامہ نبیل محمد اسماعیل  نے تقلید شخصی والتزام مذہب معین کوبدعات حقیقیہ میں شمار کیا ہے، ملا علی قاری سم القوارض و شرح عین العلم میں اور عبدالعظیم ملا  ابن فروخ مکی قول سدید میں لکھتے ہیں۔ اعلم[9] ان اللہ لم یکلف احدا من عبادہ ان یکون حنفیا او مالکیا او شافعیا او حنبلیا بل اوجب علیہم الایمان بما بعث بہ محمدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والعمل بشریعتہ انتہی ما فی القول السدید مختصراً۔

ف : اور  اس عاجز نے اگرچہ ایک صورت تقلید شخصی کی معیار الحق میں یہ سبیل تنزل مباح میں درج کی تھی لیکن عندالتحقیق الحقیق مباح میں بھی داخل نہیں ہوسکتی، اس لیےکہ مباح خطاب شارع میں داخل ہے اور تقلید شخصی خطاب شارع سے خارج ہے۔

تفسیر کبیر میں ہے ، دوسرا مسئلہ یہ ہےکہ اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ اہل کتاب کے اپنےمولویوں اور پیروں کو رب بنانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ان کو  عقیدہ ً خدا سمجھتے تھے بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ اوامر و نواہی میں ان کی اطاعت کرتےتھے عدی بن حاتم سے روایت ہے (یہ پہلے عیسائی تھے ، وہ آنحضرتﷺ کے پاس جب پہنچےتو آپ اس وقت سورہ برأت کی یہ آیت پڑھ رہے تھے) میں نے عرض کیا کہ ہم تو ان کی عبادت نہیں کیاکرتے تھے  آپ نے فرمایا، ’کیا جب وہ کسی  چیز کوحلال یا حرام قرار دیتے تھے تو تم اس کو حلال یا حرام نہیں سمجھتے تھے۔‘‘ میں نے عرض کیا ہاں ، تو فرمایا، یہی ان کی عبادت تھی، ربیع کہتے ہیں ، میں نےابوالعالیہ سے سوال کیا کہ بنی اسرائیل ان کو خدا کس طرح بناتے تھے ، تو آپ نے کہا وہ کتاب اللہ کے احکام کی پرواہ نہیں کرتے تھے اوران کے اقوال قبول کرلیاکرتے تھے، شاہ ولی اللہ صاحب خاتم المققین والمجتہدین فرماتے ہیں’’ میں نے فقہائے مقلدین کی ایک جماعت اس طرح کی دیکھی ہے کہ میں نے بعض مسائل میں ان کو قرآن پاک کی آیات پڑھ کر سنائیں جو ان کے مذہب کے خلاف تھیں ، تو انہوں نے ان آیات کو نہ تو قبول کیا او رنہ ان کی طرف توجہ ہی کی او رحیران و پریشان دیکھتے رہے مطلب یہ ہے کہ ہمارےمجتہدین کے اقوال اگر ان کے برخلاف ہوںتو ان ظاہر آیات پرعمل کیسے کرسکتے ہیں۔ اگر آپ اچھی طرح غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ ہماری اکثر اہل دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اگر یہ سوال کیاجائے کہ شیطان کی پیروی کرنے والے کو تو صرف فاسق کہا جاتا ہے اور مولویوں اور پیرون کی اطاعت کرنے والوں پر خدا تعالیٰ نےکفر کا فتویٰ کیوں لگا دیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ فاسق اگرچہ شیطان کی اطاعت کرتا ہے لیکن اس کو دل سے بُرا جانتا ہے اس پر لعنت کرتا ہے او راس کو ذلیل سمجھتا ہے او ریہ لوگ مولویوں او رپیروں کی اطاعت کرتے ہیں تو یہ ان کی تعظیم کرتے ہیں، ان کو حق پر سمجھتے ہیں، سو ان دونوں میں یہ فرق ہے۔

مولانا شاہ عبدالعزیز تفسیر عزیزی میں  آیت ’’واذا قیل لہم اتبعوا ما انزل اللہ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں کہ ’’ جب ان کو کہا جاتا ہے کہ حکم الہٰی کی پیروی کرو اور آباء و اجداد اور شیطان کی پیروی چھوڑ دو، تو کہتے ہیں کہ ہم خدا کے حکم کی اطاعت نہیں کرسکتے کیونکہ ہم میں اتنی قابلیت ہی نہیں کہ ہم خدا کے حکم کو سمجھ سکیں او رپھر ہمیں یہ یقین بھی  کیونکر آسکتا ہے کہ جو کچھ تم کہہ  کررہے ہو، یہ خداوندی حکم ہے ہم تو اسی رسم و رواج کی پیروی کریں گے، جس پر ہم نے اپنے باب دادا کو پایا ہے، جو وہ کھاتے تھے ہم کھائیں گے جو حرام جانتے تھے ہم اس کو حرام جانیں گے کیونکہ ہمارے باپ دادا ہم سے زیادہ عقل مند تھے، اگر اس میں وہ کوئی خرابی دیکھتے تو ضرور اس کو چھوڑ دیتے او راب  اگر ہم ان کے رسم و رواج کی خلاف ورزی کرکے کھائیں پئیں گے، تو تمام آدمی ہم کو طعنہ دیں گے اور خصوصاً برادری ناراض ہوکر ہم کو برادری سے خارج کردے گی، ہم سے تعلقات منقطع کرلیں گے ، بالکل اسی طرح ہندو بھی اپنے رسم و رواج کونہیں چھوڑتے اور بعض جاہل مسلمان رسوم باطلہ کے ترک کرنے میں یابیوہ کادوسرا نکاح کرنے میں بالکل یہی عذر پیش کرتے ہیں ابن ابی اسحاق اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک دن آنحضرتﷺ نے یہودیوں سے کلام شروع کیا، ان کواسلام کی خوبیاں اس طرح سمجھائیں اور اسلام قبول نہ کرنےکے بارے میں ان کو ایسا لاجواب کیاکہ کوئی عذر باقی نہ رہ گیا ۔ بالآخر رافع بن خارجہ اور مالک بن عوف نے کہا کہ آپ کے دین کی حقانیت تو مسلم  ہے لیکن ہم اپنے باپ دادا کی پیروی کریں گے کیونکہ وہ ہم سے بہتر بھی تھے اور عالم بھی زیادہ تھے ، تو  اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

چوتھی بات یہ ہے کہ اس آیت میں تقلید کے ابطال کی طرف اشارہ ہے دو طریق سے، پہلی وجہ  یہ ہے کہ مقلد سے پوچھنا چاہیے کہ جس کی تو تقلید کرتا ہے، وہ تیرے نزدیک حق پر ہے یا نہیں؟ اگر تو اس کے حق پر ہونے کو نہیں جانتا اور اس کے غلطی پر ہونے کے احتمال کو بھی سمجھتا ہے تو اس  کی تقلید کیوں کرتاہے اور اگر اس کا حق پر ہونا جانتا ہے تو کیونکر جانتا ہے ، اگر کسی او رکے کہنے پر تجھے اعتبارآگیا ہے تو پھر اس کا حق پرہونا جانتا ہے یا نہیں۔ اس طرحتسلسل اور دور  لازم آئے گا اور اگر عقل سے اس کا حق پر ہوناسمجھتا ہے تو اس عقل کو حق کی معرفت میں کیوں استعمال نہیں کرتا؟ کیوں اپنے لیے تقلید کی ذلت گوارا کرتا ہے ۔ دوری وجہ یہ ہے کہ جس کی تو تقلید کرتا ہے اس نے بھی اس مسئلہ کوتقلید سے معلوم کیا ہے یادلیل سے؟ اگر اس نے بھی اسے تقلید ہی سے معلوم کیا ہے تو پھر تو اور وہ برابر ہوگئے وہ تجھ سے بہتر کیونکر ہوا اور اسنے اگر اسے دلیل سےمعلوم کیا ہے تو اس کی صحیح تقلید تو یہ ہےکہ تو بھی اسے دلیل سے معلوم کر، ورنہ اس کا  مخالف ہوگا نہکہ مقلد اور جب تو نے اس کو دلیل سے معلوم کرلیا توتقلید ختم ہوگئی۔

تفسیر کبیر میں کہا ہے’’دوسرا مسئلہ آیت کامعنی ہے، اللہ تعالیٰ نے ان ک وحکم دیاکہ خداوند تعالیٰ کی واضح دلیلوں کی پیروی کرو تو انہوں نے جواباً کہا کہ ہم اس کی پیروی نہیں کریں گے ہم تو اپنے باپ دادا کی پیروی کریں گے گویا انہوں نے دلیل کامقابلہ تقلید سے کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو جواب دیا کہ اگرچہ ان کے باب بےسمجھ اور گمراہ ہی ہوں، تب بھی انہی کی پیروی کریں گے اور اس میں مسائل ہیں۔ دوسرا مسئلہ اس جواب کی کئی طریق سے تقرر کا ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ  مقلد سے پوچھنا چاہیے کیا تو یہ اقرار کرتا ہے کہ کسی انسان کی تقلید کرنے کے لیے اس کے حق پر ہونے کا علم بھی ضروری ہے یانہیں؟ اگر وہ اقرار کرے کہ ہاں اس کے حق پر ہونے کا علم ضروری ہے تو اس سے پوچھا جائے کہ تم کو اس کا حق پر ہونا کیسےمعلوم ہوا؟ اگر کسی دوسرے کی تقلید سے ہوا ہے تو تسلسل اور دور لازم آئے گا اور اگر تو نے عقل سے معلوم کرلیا ہے تو یہ عقل دلیل تلاش کرنے  کے لیے کافی ہے، تقلید کی ضرورت نہیں ہے اور اگرمقلد کے حق پرہونے کا علم ضروری نہیں سمجھتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تو نے اس کے باطل پر ہونے کے جواز کے باوجود اس کی تقلید کرلی اس وقت تم کو یہ معلوم نہ ہوگا کہ تم حق پر ہو یا باطل پر، دوسری وجہ یہ ہے کہ فرض کرلو جس کی تم تقلید کرتے ہو اگر اس کو اس مسئلہ کاعلم نہ ہوتا یاوہ خود ہی دنیا میں پیدانہ ہوتا، تو تم کیاکرتے، یقیناً تم کو کسی اور کی طرف نگاہ اٹھانا پڑتی سو اب بھی ایسا ہی کیوں نہیں کرلیتے۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ جس پہلے آدمی کی تم تقلید کررہےہو، اس نے اس مسئلہ کوکیسےمعلوم کیا اگ رکسی اور کی تقلید سے معلوم کیا ہے تو دور لازم آئے گا اور اگر اس نے دلیل سے معلوم کیا ہے تو اس کی تقلید تو یہ ہے کہ تم بھی دلیل سے اس کو معلوم کرو ، ورنہ مخالفت لازم آئے گی ،تو معلوم ہوگیاکہ تقلید سےکوئی بات کہنا تقلید کی نفی کی طرف لے جاتا ہے پس تقلید باطل ٹھہری، تفسیر کبیر کا مضمون ختم ہوا، یہ آیت مشرکین کےحق میں نازل ہوئی کہ جب ان کو دلائل کے اتباع کی دعوت دی گئی تو وہ تقلید آباء کی طرف جھک گئے، بعض کہتے ہیں کہ یہ آیت یہود کی ایک جماعت کے حق میں نازل ہوئی ان کو حضور نے اسلام کی دعوت دی تو وہ کہنے لگے، ہمارےباپ دادا ہم سے بہتر تھے زیادہ عالم تھے۔ ہم ان کی پیروی کریں گے (ابوالسعود)

پس آیات کریمہ مذکورہ بالا سے صاف  ظاہر ہےکہ مقلدان زمانہ باوصف درس و  تدریس صحاح ستہ و قرآن مجید کے بنا پر اعتماد قواعد مخترعہ متاخرین اورروشن و عادت اہل کتاب و نصوص صریحہ قرآن و حدیث سے بلطائف الحیل و تاویلات رکیکہ مقابلہ و معارضہ کرتے ہیں او رکہتے ہیں کہ ہم کو اس قدر فہم و فراست کہاں کہ مقاصد قرآن و حدیث پر عبور کریں جو کچھ اسلاف کرام نے قواعد و اصول مقرر کیے ہیں ان پرعمل کرتے ہیں، پس ان پر فرمودہ رسول مقبولﷺ راست آیا۔ لتتبعن[10] سنن من کانقبلکم شبرابشیر ذراعاب ذراع حتی لود خلوا حجر ضب تبعتموھم قلنا یارسول اللہ الیہود والنصاری قال فمن ۔ انتہی مافی صحیح البخاری وغیرہ من کتب الحدیث۔

ان نافہم مقلدوں کے  ہمچنیں طریقہ و شعار پر صد ہزار افسوس ہے کہ ائمہ مجتہدین کے اقوال پر بھی کاربند نہیں ہوتے، بلکہ بمقتضائے مضمون آیت کریمہ فی کل وادیھیمون یعنی وادی جہالت میں سرگردان رہتے ہیں اور تابعداران و متبعان خدا  و رسول کو بزعم فاسد خود سب و شتم و زدوکوب کرتے ہیں اور لا مذہب و بددین کہتے ہیں۔ پس ان کے یہ تمام آثار و شعار  بہ سبب ہوائے نفسانی و موجب عدم تدبر قرآن و حدیث و اقوال سلف صالحین و متاخرین محققین کے خلاف ہیں او راقوال بلادلیل پرنازاں و فرحان ہیں، مسلم الثبوت میں مذکور ہے، عن [11]ائمتنا لا یحل لا حدان یفتی بقولنا مالم یعلم من این قلنا انتہی وھکذا فیسم القوارض اللملا علی قاری الھروی۔

واسامی کتب اہل اصول مذہب حنفی وغیرہ کے عدم وجوب تقلید  شخصی میں یہ ہیں، باب ثامن عشر قضا فتاوے عالمگیری، و فتح القدیر، و تحریرالاصول لابن الہمام، و تقریر شرح تحریر صاحب عنایہ و تحبیرشرح تحریر امیر الحاج و شرح تحریر سیدبادشاہ، شرح منہاج علامہ قاسم ، و مسلم الثبوت محب اللہ البہاری، و مختصر الاصول ابن حاجب ، و عضدی شرح مختصر الاصول و شرح تحریر و مسلم مولانا نظام الدین و بحرالعلوم مولوی عبدالعلی ، و عقد الفرید شرنبلالی، و طحطاوی و رد المختار ، و طوالع الانوار حواشی در مختار و مغتنم الحصول علامہ حبیب اللہ قندھاری و قول سدید شیخ الشیوخ سید احمد طحطاوی ، تحصیل التعرف فی  معرفت الفقہ والتصوف شیخ عبدالحق محدث دہلوی و کتاب الرد علی من اخلد الی الارض للشیخ جلال الدین السیوطی و علامہ عبدالبر و قرافی در شرح اصول ، و عبدالوہاب در میزان دیواقیت و عقد الجیدو حجۃ اللہ البالغہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی و سوالات عشرہ شاہ عبدالعزیز وقاضی ثناء اللہ پانی پتی کا رسالہ عمل بالحدیث و کتاب فارسی جو گویاترجمہ مسلم الثبوت ہے، تنویر الطنیین و ایضاح الحق مولانا محمد اسماعیل شہید دہلوی جیساکہ واقفان و مزادلان کتب مذکورہ پر مخفی نہیں ہے اس صورت میں مقلدین ہوا پرستان پر واجب ہے کہ بنظر انصاف و تدبر تمام کتب مذکورہ کوملاحظہ فرما کر افراط و تفریط سے باز آویں، تارضائے مولانا پادین۔

اند کے باتو بگفتم و بدل ترسیدم

کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است

واضح ہو  کہ جاہل ناواقف پربمقتضائے ل[12]وکنا نسمع او نعقل ماکنا فی اصحاب السعیر الایۃ ھل [13]یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون الایۃ فاسئلوا[14] اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون۔ وغیرہا من الایات، مسائل کا پوچھنا اور سیکھنا شرعاً فرض و واجب ہے یعنی ہر جاہل لاعلمی کے وقت کسی عالم اہل الذکر سے خواہ وہ عالم افضل ہو، خواہ وہ فاضل خواہ مفضول ہو، کیونکہ اہل الذکر عند التحقیق عام ہے، مسئلہ دریافت کرلیا کرے۔ خواہ ایک عالم اہل ذکر سے پوچھ لے یا دو سے، فی الجملہ جس سے تسلی اور دل جمعی ہو، پھر جب ایک سے یا دو سے مثلاً دریافت کرلیا، عہدہ تکلیف سے باہر ہوگیا، اس پر شرعا مواخذہ نہ رہا اور اس پر قطعاً اجماع ہوچکا۔

اعلم[15] ان کلا من المجتہدین والعماء الکاملین من اھل الذکر الذین وجب سوالھم و اتباعہم لمن لم یصل الی درجۃ النظر والاستدلال فاذاعمل احد من المقلدین بقول احد منھم فقدادی ما علیہ ھذا خلاصۃ ما یستفاد من القول السدید وغیرہ۔ مسئلہ یجوز تقلید المفضول مع وجود الافضل فی العلم عند الاکثر وعن احمد و کثیر المنع بل یجب النظر فی الارحج ثم اتباع لنا اولا کما اقول عموم فاسئلوا اھل الذکر و ثانیا القطع فی عصر الصحابۃ باستفتاء کل صحابی مفضول فکان اجماعا و من ثم قال الامام لو لااجماع الصحابۃ لکانمذہب الخصم اولی انتہی ما فی مسلم الثبوت فمن انکر عموم اھل الذکر فاولی لہ ثم اولی لہ اللھم ارنا الحق حقا والباطل باطلا۔ واللہ اعلم بالصواب فاعتبرو ایااولی الالباب۔ الرقم عاجز سید محمد نذیر حسین۔

1281 سید محمد نذیرحسین



[1]   نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلو، بلکہ نیک وہ آدمی ہے جو اللہ تعالیٰ پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتابوں پر او رنبیوں پر ایمان رکھتا ہو (آخر آیت تک) یہ لوگ سچے ہیں او ریہی پرہیزگار ہیں۔ الآیۃ یہ لوگ اپنے رب سے ہدایت پرہیں او ریہی لوگ نجات پانے والے ہیں وغیرہ قرآنی آیات او رحضرت عباس بن عبدالملطب سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:’’جو اللہ کے رب ہونے پر او راسلام کے دین ہونے پر اور محمد کے رسول ہونے پر راضی ہوا اس نے ایمان کامزہ چکھ لیا او رحضرت انسؓ نے کہا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ’’جو ہماری طرح نماز پڑھے او رہمارے قبلہ کی طرف منہ کرے او رہمارا ذبیحہ کھائے تو یہ وہ مسلمان ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ کا عہد ہے، سو اللہ کے عہد میں خیانت نہ کرو۔

 

[2]  اگر وہ توبہ کریں،اور نماز کی پابندی کریں او رزکوٰۃ اداکریں تو وہ دین میں تمہارے بھائی ہیں۔

[3]   اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’جو اسلام کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے گا تو اس سے قطعاً قبول نہ کیا جائے گا ۔

[4]   اللہ تعالیٰ نے اس کی کوئی دلیل نہیں اتاری ، حکم صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔

[5]  اللہ کے سوا کسی کا حکم واجب القبول او رکسی کا امر واجب الالتزام نہیں ہے بلکہ  حکم اور امر او رکسی کو مکلف بنانے کا حق صرف اللہ کا ہے۔ تفسیر کبیر او رنیشاپوری کا اقتباس ختم ہوا۔

[6]   حکم کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کا خطاب جو کسی مکلف کے متعلق ہو اگر قطعی دلیل ہے حتمی طو رپر کرنے کا حکم ہو تو وہ واجب ہے او راگر ظنی دلیل سے حتمی طور پر روکا جائے تو وہ مکروہ تحریمی ہے اور اگر کسی کام کا کرنا ضروری قرار نہ دیا جائے بلکہ بہتر سمجھا جائے تو وہ مندوب ہے اگر روکا جائے تو وہ کراہت تنزیہی ہے اور اگر کرنے نہ کرنے کا اختیار دیا جائے تو اس کا نام اباحت ہے، شرح مسلم وغیرہ کتب اصول میں ایسا ہی لکھا ہے۔

[7]   اس لیے  کہ اباحت یعنی جس کا کرنا نہ کرنابرابر ہو، ایک شرعی حکم ہے کیونکہ احکام سے ہے او رحکم شریعت ہی کی ایک شاخ ہے تو معلوم ہوا کہ اباحت حکم شرعی ہے اس لیےکہ اباحت شرع کا خطاب ہے اور خطاب حکم شرعی ہے یعنی اباحت شریعت کا تخییری حکم ہے، مسلم الثبوت میں ایسا ہی ہے۔

[8]    آنحضرت ﷺ نے فرمایا، جو آدمی ہمارے دین میں نیا کام جاری کرے جو اس کا جزو نہ ہو تو وہ کام مردود ہے اور آنحضرتﷺ نے فرمایا، اگر کوئی ایسا کام کرے جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔

[9]   جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بندے کو بھی یہ حکم نہیں دیا کہ وہ حنفی یا مالکی یاشافعی یا حنبلی بنے کیونکہ ان کے لیے آنحضرتﷺ کے احکام پر ایمان لانا او راس پر عمل کرنافرض قرار دیا ہے۔

[10]   تم اپنے سے پہلے لوگوں کی پوری پوری پیروی کرو گے بالشت با بالشت او رہاتھ بہ ہاتھ ،اگر ان میں سے کوئی گوہ کے بل میں  گھسا ہوگا تو تم بھی گھسو گے، ہم نے پوچھا اے اللہ کے رسولؐ یہود و نصاریٰ کی پیروی کریں گے آپنے فرمایا اور کس کی؟

[11]   ہمارے اماموں کا قول ہے کہ کسی آدمی کواس وقت تک ہمارے قول پرفتویٰدینا جائز نہیں ہے جب تک کہ اس کو یہ معلوم نہ ہوجائے کہ ہم نے وہ قول کیوں کہا، ملا علی قاری کی سم القوارض میں بھی اسی طرح ہے۔

[12]   اگر ہم سنتے یاعقل سے  کام لیتے، تو ہم دوزخ والوں میں سے نہ ہوتے۔

[13]   کیا جاہل او رعالم کبھی برابر ہوسکتے ہیں۔

[14]   اگر تم کو معلوم نہیں تو اہل ذکر (علم والوں) سے پوچھ لو۔

[15]   جان لینا چاہیے کہ ہراس آدمی کے لیے جو درجہ نظر و  استدلال تک نہیں پہنچا ہے، سارےمجتہد اور علمائے کاملین اہل ذکر ہیں ، جن سے مسئلہ پوچھنے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ، جب کوئی مقلد کسی عالم کے قول پرعمل کرے گا تو س سنے اپنی تحقیق کرلی’’ القول السدید‘‘ وغیرہ سے ایسا ہی معلوم ہوا ہے۔

     مسئلہ: افضل اور اعلم کے ہوتے ہوئے بھی مفضول کی تقلید اکثر اہل علم کے نزدیک جائز ہے ہاں امام احمد او رکچھ دوسرے علماء اس کے قائل نہیں ہیں، ان کے نزدیک ’’زیادہ صحیح‘‘ کی تلاش ضروری ہے، ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ اولاً اللہ تعالیٰ ن ےاہل الذکر میں عموم رکھا ہے اور ثانیاً صحابہ کے زمانہ میں یہ فیصلہ ہوگیا کہ افضل کے ہوتے مفضول صحابہ بھی فتویٰ دیاکرتے تھے تو گویا اس طرح پراجماع ہوگیا، یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے فرمایا ، اگر صحابہ کا اجماع نہ ہوگا تو ہمارےمخالفین کی بات راجح ہوتی، مسلم الثبوت کا مضمون ختم ہوا۔ سو جو عموم اہل ذکر کا انکارکرے، اس پرنہایت ہی افسوس ہے۔ خداوندا ہمیں حق حق دکھا او رباطل باطل۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ