بعض عالم تقلیدکو فرض بتاتے ہیں اور آیت فاسئلوا[1]اھل الذکر اورآیت یاایہا[2] الذین امنوا اطیعو اللہ و اطیعوا الرسول واولی الامر منکم، میں اہل الذکر اور اولی الامر سے ائمہ مجتہدین مراد لیتے ہیں، کیا ان کی یہ بات صحیح ہے؟
بعض علماء کی یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ ان دونوں آیتوں سے تقلید کا کچھ بھی تعلق نہیں ہے، ان دونوں آیتوں میں اہل الذکر اور اولی الامر سے ائمہ مرادنہیں ہیں، بلکہ پہلی آیت میں اہل الذکر سے مراد اہل کتاب ہیں او راس آیت کے مخاطب کفار مکہ ہیں جو رسول اللہﷺ کی رسالت سے انکار کرتے تھے او رکہتے تھے کہ یہ محمد (ﷺ) تو آدمی ہیں، پیغمبر کیونکر ہوئے، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کفار کو جواب دیا کہ پہلے بھی جتنے پیغمبر ہوئے سب آدمی ہی تھے، فرشتہ نہ تھے۔ اگر تم کو یہ بات معلوم نہ ہو تو یا د والوں یعنی اہل کتاب یہود و نصاریٰ سے دریافت کرلو، پوری آیت اس طرح پر ہے: وما[1] ارسلنا من قبلک الارجالا نوح الیہم فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم تعلمون (سورہ نحل) شاہ ولی اللہ صاحب اس کا ترجمہ اس طرح لکھتے ہیں ، ونہ فرستادہ ایم پیش از تو مگر مردانے را کہ وحی می فرستادیم بسوئے ایشان پس سوال کنید از اہل کتاب اگر نمیدانید اور اس آیت کے فائدہ میں لکھتے ہیں کہ یعنی پیغمبران سابق آدمی بودند فرشتہ نہ بودند انتہی۔ اور شاہ عبدالقادر صاحب اس آیت کا ترجمہ اس طرح لکھتے ہیں ، اور تجھ سے پہلے بھی ہم نے یہی مرد بھیجے تھے کہ حکم بھیجتے تھے ان کی طرف ، سو پوچھو یاد رکھنے والوں سے ، اگر تم کومعلوم نہیں ، اور شاہ صاحب موصوف اس کے فائدہ میں لکھتے ہیں ’’یادرکھنے والے یعنی اہل کتاب ، کہ اگلے احوال جانتے تھے۔
الحاصل بعض علماء کا اہل الذکر سے ائمہ مراد لینا او راس آیت سےتقلید کو فرض بنانا نہایت غلط اور واہی بات ہے او ردوسری آیت میں اولوالامر کے معنی حکومت والے ہیں او ریہی معنی مراد بھی ہیں یعنی بادشاہ اسلام او رحاکم جو صاحب حکومت او ربااختیار ہوتے ہیں، شاہ ولی اللہ صاحب اس آیت کا ترجمہ اس طرح لکھتے ہیں، اے[2]مومنان فرمانبرداری کنید خدارا و فرمانبرداری کنید پیغامبر راد فرمانروایان را از جنس شما اور شاہ عبدالقادر صاحب اس طرح لکھتے ہیں، اے ایمان والو! حکم مانو اللہ اور اس کے رسول کا، او ران کا جو تم میں سے اختیار والے ہیں اور فائدہ میں لکھتے ہیں ’’اختیار والے بادشاہ اورقاضی اور جو کسی کام پر مقرر ہوں ان کے حکم پر چلنا ضرور ہے الخ۔
پس بعض علماء کا اس دوسری آیت میں اولی الامر سے ائمہ مجتہدین مراد لینا او راس سے تقلید ائمہ مجتہدین کی فرض بتانا بالکل غلط ہے ، کیونکہ ائمہ مجتہدین میں سے کوئی بھی صاحب حکومت نہیں تھے اور اگر بالفرض ان میں کوئی صاحب حکومت و بااختیار ہوتا بھی تو بھی اس آیت سے اس کی تقلید کرنے کا ثبوت نہیں ہوتا ہے ہاں اس آیت سے اس کے زیرحکومت رعایا پر اسکے حکم کا ماننافرض اور ضروری ہوتا او ریہ بھی اس کے حاکم ہونے کی وجہ سے ، نہ کہ اس کے امام دین ہونے کے سبب سے او رحاکم کا حکم ماننا اور بات ہے او رمسائل دینیہ میں اس کی تقلید کرنا او ربات، دیکھو مثلاً سلطان روم کی تمام رعایا جو ان کے زیر حکومت ہیں، ان کے حکم ماننےکو ضروری سمجھتے ہیں اور مانتے بھی ہیں مگر نہ ان کی تقلید کو ضروری سمجھتے ہیں اور نہ ان کےمقلد ہیں۔
المختصر تقلید نہ تو کسی آیت قرآنیہ سے ثابت ہے او رنہ کسی حدیث سے اور نہ کسی امام نے اپنی تقلید کرنے کی اجازت دی ہے، تقلید کےبطلان میں بہت اچھے اچھے رسالےتصنیف ہوچکے ہیں اس کے بطلان کی وجوہ مفصل طور پر دیکھنا ہو تو ان رسالوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے، کتبہ علی محمد عفی عنہ۔
[1] ہم نے آپ سے پہلے آدمی ہی رسول بناکر بھیجے ہیں اگر تم کو اس بات کا علم نہیں تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔
[2] اے مومنو! خدا کی فرمانبرداری کرو اور پیغمبر کی فرمانبرداری کرو اور اپنی جنس کے بادشاہوں او رحاکموں کی فرمانبرداری کرو۔