آنحضرت ﷺ کی قبر کے علاوہ اور کسی جگہ پر ’’یارسول اللہ‘‘ کہنا جائز ہے یا نہیں؟
’’یارسول اللہ‘‘ کا لفظ آنحضرتﷺ کو پکارنا ہے اور پکارا اسی کو جاتا ہے جو حاضر ہو ایسے آدمی کا عقیدہ گویا یہ ہے کہ آپ ہرجگہ موجود ہیں اور یہ چیز علم محیط کے بغیر نہیں ہوسکتی اور علم محیط اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے اور ایسا علم کسی دوسرے کے لیے ثابت کرنا شرک ہے۔
ملا حسین خباز نے اپنی کتاب ’’مفتاح القلوب‘‘ میں لکھا ہے ’’اموات غائبات کو اس حیثیت اور اعتقاد سےپکارنا کہ وہ حاضر ہیں ، مثلاً یارسول اللہ اور یا شیخ عبدالقادر جیلانی وغیرہ، سو یہ کفر ہے ، یہی وجہ ہے کہ کتب فقہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی اللہ اور رسول کی شہادت سے نکاح کرے تو وہ نکاح منعقد نہیں ہوگا اور نکاح کرنے والاکافر ہوجائے گا کیونکہ اس کاعقیدہ یہ ہے کہ نبی ﷺ غیب جانتے ہیں۔ (بحرالرائق وغیرہ)
اور نبی یا کسی دوسرے کو ندا کرنےیا درود اور غیر درود میں ندا کرنے کا جو فرق کیا جاتا ہے وہ ہماری سمجھسے تو بالا تر ہے کیونکہ نداتو حاضر کے لیے ہوتی ہے اور نبی بھی حاضر نہیں ہوتا۔ نہ درود کے وقت اور نہ کسی دوسرے وقت ،درود کے متعلق صرف اتنا ثابت ہےکہ اس کو فرشتے پہنچا دیتے ہیں، پس ندا حاضر ہونے کے عقیدہ کی طرف اشارہ کرتی ہے اور یہ عقیدہ شرک ہے تو ایسے الفاظ شرکیہ سے پرہیز کرنانہایت ضروری ہے اگر کوئی ’’صلوٰۃ الحاجۃ‘‘ کی روایت سے استدلال کرے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت نبیﷺ حاضر تھے، اور اب ان الفاظ کو حکایت حال ماضی کے طور پر پڑھ دیتے ہیں۔ جیسے نماز کےالتحیات میں پڑھتے ہیں، شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنے رسالہ ’’تحصیل البرکات فی بیان معنی التحیات‘‘ میں لکھا ہے ، کہ اگر کوئی یہ کہے کہ التحیات میں خطاب کے انداز میں سلام پڑھا جاتا ہے، حالانکہ رسول پاک وہاں موجود نہیں ہوتے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسے حکایت حال ماضی کے طور پر پڑھا جاتا ہے اور اس کےعلاوہ بخاری شریف میں مروی ہے کہ صحابہ آپ کی زندگی میں خطاب سے پڑھتے تھے اور آپ کےبعد ’’السلام علی النبی‘‘ (نبی پرسلام ہو) کے الفاظ پڑھنے لگے تھے، پس ان الفاظ سے استدلال نہیں ہے، واللہ اعلم۔ (سیدمحمد نذیر حسین)